محمد عمر دین کے چار بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے محمد عمر دین کا زرعی رقبہ دس ایکڑ ہے جس میں سے آٹھ ایکڑ رقبہ چاروں بیٹوں کو دودو ایکڑ کے حساب سے بطور قبضہ کے دیدیا یعنی تقسیم کرکےہر ایک کو اس کاحصہ دیا،لیکن کاغذی طور پر ان کے نام نہیں کروایا۔اور بقیہ دو ایکڑ رقبہ محمد دین کے اپنے قبضہ میں تھا اور ان کی وفات ہوگئی ،اب بیٹی کو حصہ دس ایکڑ سے ملے گا یا دوایکڑ سے اور دونوں صورتوں میں بیٹی کو کتنا حصہ ملے گا ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
١۔زندگی میں اولاد کو زمین یا نقدی وغیرہ کوئی اور چیز دینے میں شریعت کا حکم یہ ہے اولاد میں برابری ہو یعنی لڑکےاور لڑکیاں دونوں کو برابر حصے دیئے جائیں ،
۲۔دینداری ، خدمت گذاری ،اور احتیاج وغیرہ کسی وجہ ترجیح کے بغیر کسی کودینا کسی کو محروم کرنا ،یا کم زیادہ دینا مکروہ ہے ۔
۳۔ایک کو نقصان پہچانے کی نیت سے دوسرے کو زیادہ دینا طلم اور ناانصافی ہونےکی بناء پر ناجائز اور گناہ ہے ۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعتا آٹھ ایکڑ کا رقبہ تقسیم کرکے چار بیٹوں کو مالک بناکر قبضہ میں دیدیا اور بیٹی کو کچھ نہیں دیا تو یہ ناجائز اور گناہ ہو ا تاہم چاروں بیٹے اپنے اپنے حصے کے زمین کی مالک ہوگئے ۔اب آٹھ ایکڑ کے علاوہ جوزمین انتقال کے وقت مرحوم کی ملک میں تھی وہ اور اس کے علاوہ سونا چاندی نقدی اور چھوٹا بڑا جوبھی سامان مرحوم کی ملک میں تھا وہ سب ترکہ مرحوم کے ورثہ میں تقسیم ہوگا ،بیٹی کو پورا پورا حصہ ملے گا ۔والد کو گناہ سے بچانے کے لئے ھبہ شدہ آٹھ ایکڑ سے بھی لڑکی کو حصہ دینا چائے ۔
بیٹی کا حصہ =اگر مرحوم کی بیوہ حیات ہے تو اس کاآٹھواں حصہ منہا کرکے بقیہ ترکہ کا نواں حصہ بیٹی کودیاجائے ،اگر وہ حیات نہیں ہے توکل ترکہ کا نواں حصہ ہے ۔
حوالہ جات
رد المحتار (24/ 42)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب ، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار ، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم
قوله وعليه الفتوى ) أي على قول أبي يوسف : من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملی
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها،