سوال :ہم چاربھائی اورایک بہن ہیں،ہماری والدہ محترمہ کے نام ایک مکان تھاجوکہ نارتھ کراچی میں ٫2002 میں فروخت ہوا،پھران(والدہ )کی زندگی میں دوسرامکان گلستان جوہرمیں25/08/2002 میں سنگل اسٹوری 240گزکاخریداجس کی قیمت اس وقت 26 لاکھ تھی جس میں 18 لاکھ والدہ کے تھے،اور8 لاکھ میرے ذاتی تھے،پھراس مکان کوڈبل اسٹوری میں نے اپنے ذاتی 24 لاکھ لگاکربنوایا،پھر2012 میں ہماری والدہ وفات پاگئیں،اب اس پرپرٹی (اس ڈبل اسٹوری پراپرٹی ) کی قیمت لگ بھگ ڈھائی کروڑکے قریب ہوگی۔
مزید یہ کہ یہ گھر٫2002 سے ہی کرائے پراٹھاہواہے،اوراس کامکمل کرایہ میں ہی آج تک لیتاآیاہوں،جس کاعلم تمام بہن بھائیوں کوہمیشہ سے رہاہے،اورکسی نے آج تک اس بات پرکوئی اعتراض ظاہرنہیں کیا،والدہ نے اس گھرکے بارے میں کوئی بھی تحریری وصیت نہیں کی ،اب علماء کرام سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی بتائیےکہ اس گھرکوبیچ کرتمام بہن بھائیوں میں کس طرح اورکتناکتناتقسیم کریں ؟جزاکم اللہ
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدہ نے بوقت انتقال جائیداد،نقدی،سوناوغیرہ جوکچھ بھی چھوڑاہےسب سے پہلے اس میں سے ان کی تجہیزوتکفین کے اخراجات منہاکئے جائیں،اگرکسی نے تبرعاکردئیےتوترکہ سے نہیں لئے جائیں گے ،پھراگران کے ذمہ کوئی قرضہ وغیرہ ہوتووہ اداکیاجائے،پھراگر کوئی جائزوصیت کی ہوتوایک تہائی مال تک اس پرعمل کیاجائے،اس کے بعد جتنی رقم بچے وہ میراث ہوگی اورتمام بہن بھائیوں میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
موجودہ گھرمیں تعمیرکے وقت جتنی رقم لگی تھی وہ 50 لاکھ تھی جن میں صرف 18 لاکھ والدہ کے تھے،اور18 لاکھ 50 لاکھ کا%36 فیصدہے،گویاکہ مکان کی پوری تعمیر میں سے 36 فیصد والدہ کاخرچہ ہواہے۔
گھر کی موجودہ قیمت ڈھائی کروڑ کا%36 جوکہ والدہ کاخرچہ ہوا تھاوہ میراث شمارہوگا،اوراس میں تمام بہن بھائیوں کابھی حصہ ہوگا،اوراس کے علاوہ باقی پوری رقم آپ کی ذاتی ہوگی ،اس میں کسی کاحصہ نہ ہوگا۔
ڈھائی کروڑکا %36 فیصد 90 لاکھ بنتاہے،یہ تمام بہن بھائیوں میں بطورترکہ تقسیم ہوگا،اوراس میں آپ بھی بحیثیت وارث اپنے حصے کے مالک ہوں گے۔
اگرتمام ورثہ عاقل بالغ ہوں اوربخوشی وہ گھرمیں اپنامشترکہ حصہ آپ کوفروخت کردیں،تواس حصہ کے خریدنے کے بعد آپ اس کے تنہامالک شمارہوں گے،اس مشترکہ حصے کی رقم ہروارث اپنے حصے کے حساب سے لے گا۔
میراث کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ 90 لاکھ میں سے ہرایک بھائی کو20 لاکھ اورایک بہن کو 10 لاکھ روپے ملیں گے۔
مکان کاکرایہ جواب تک آپ لیتے رہے ہیں اس کاحکم یہ ہے کہ اگردوسرے بھائی آپ کے استعمال کرنے پرراضی ہیں جیساکہ سوال میں لکھاگیاہے(اورمزید وضاحت کے لئے ان سے لکھوابھی لیاجائے تاکہ مستقبل میں وہ وراثت کادعوی نہ کریں)،توآپ کااستعمال درست ہےورنہ مکان کا کرایہ بھی میراث میں شامل ہوگااوربہن بھائیوں کااس میں بھی حصہ ہوگا،اس کی تقسیم کاطریقہ یہ ہوگااب تک آپ نے جتناکرایہ استعمال کیاہے،اس کومکان کی قیمت(ڈھائی کروڑ) میں جمع کرکے مکمل رقم کا %36 فیصد میراث ہوگا،اورتقسیم سابقہ طریقہ سے ہوگی،باقی آپ کاذاتی ہوگا۔
حوالہ جات
"السراجی فی المیراث "5،6 : الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :
قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ ۔
"تفسير ابن كثير" 2 / 225: فقوله (6) تعالى: { يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ } أي: يأمركم بالعدل فيهم، فإن أهل الجاهلية كانوا يجعلون جميع الميراث للذكور دون الإناث، فأمر الله تعالى بالتسوية بينهم في أصل الميراث، وفاوت بين الصنفين، فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين؛ وذلك لاحتياج الرجل إلى مؤنة النفقة والكلفة ومعاناة التجارة والتكسب وتجشُّم المشقة، فناسب أن يُعْطَى ضعْفَيْ ما تأخذه (7) الأنثى۔