021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض دے کر زیادہ وصول کرنا
57230.2خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ایک مسئلہ پوچھنا ہے وہ یہ کہ میں قسطوں کاکاروبار کرتا ہوں۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ کہ میں نے دوسرے قسطوں والے سے رکشہ قسطوں پر لیا ہے ، جس میں ایک لاکھ چالیس ہزار روپے رہ گئے ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ مجھے ا140000 روپے دے دیں تاکہ میں اس کو دے کر اپنی چھڑاؤں ،پھر میں آپ کو 6 ماہ تک قسطوں میں ایک لاکھ پچپن ہزار ادا کروں گا۔۔ کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کی طرف سے 140000 دے کر ، 155000 وصول کروں ؟ شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔ سائل : عطا ء الرحمن گلشن معمار فون نمبر 03450217666

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایک لاکھ چالیس ہزار دے کر 6 ماہ تک قسطوں میں ایک لاکھ پچپن ہزار وصول کرنا جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ صریح سود ہے،البتہ اس کی متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اگر رکشہ موجود ہے تو ایک لا کھ چالیس ہزار کے عوض رکشے میں شرکت اختیار کریں پھر اپنے حصہ کے یونٹس بنا کر تمام یونٹس دوسرے شریک کو کرایہ پر دیں۔ دوسرا شریک ( رکشہ کا ابتدائی مالک ) ایک معلوم مدت تک کرایہ ادا کرے اور کرایہ کی ہر قسط کے ساتھ مستقل قیمت (ثمن) پر آپ کے حصے میں سے ایک یونٹ خریدتا بھی رہے۔ اس طرح مقررہ مدت میں رکشہ کی ملکیت اس کی طرف منتقل ہوجائی گی۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 85) بَابُ الرِّبَا قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (هُوَ فَضْلُ مَالٍ بِلَا عِوَضٍ فِي مُعَاوَضَةِ مَالٍ بِمَالٍ) هَذَا فِي الشَّرْعِ وَفِي اللُّغَةِ هُوَ مُطْلَقُ الزِّيَادَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا} [الروم: 39] إلَى قَوْلِهِ {فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ} [الروم: 39] المغني لابن قدامة (5/ 409) ولا تجوز إجارة المشاع لغير الشريك، إلا أن يؤجر الشريكان معا. وهذا قول أبي حنيفة، وزفر؛ لأنه لا يقدر على تسليمه، فلم تصح إجارته كالمغصوب؛ وذلك لأنه لا يقدر على تسليمه إلا بتسليم نصيب شريكه، ولا ولاية له على مال شريكه. واختار أبو حفص العكبري جواز ذلك. وقد أومأ إليه أحمد، وهو قول مالك، والشافعي، وأبي يوسف، ومحمد؛ لأنه معلوم يجوز بيعه، فجازت إجارته كالمفرد، ولأنه عقد في ملكه، يجوز مع شريكه، فجاز مع غيره كالبيع، ولأنه يجوز إذا فعله الشريكان معا، فجاز لأحدهما فعله في نصيبه مفردا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب