03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدیون کا دائن سے دین میں کمی کا مطالبہ/الحط من المؤجل بشرط اداءہ المعجل
57230خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ایک مسئلہ پوچھنا ہے وہ یہ کہ میں قسطوں کاکاروبار کرتا ہوں۔ عبد المجید کو میں نے موٹر سائیکل قسطوں پر دی ، چار قسطیں دینے کے بعد انھوں نے کہا کہ میں آپ کو بقیہ قسطوں کی رقم ابھی دیتا ہوں جوکہ 50 ہزار بنتی ہے لیکن اس کو کم کرکے 45 ہزار کردیں۔ کیا میرے لیے شرعاً جائز ہے کہ میں 50 ہزار کے بجائے 45 ہزار وصول کر لوں؟ مزید وضاحت واضافہ: سائل نےمزیدوضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 50 ہزار قسطوں میں دینے کے بجائے 45ہزار نقد ، یہ خریدار کی طرف سے شرط ہے۔ اگر کمی کریں گے تو ہی میں ابھی ادائیگی کروں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کا اصول ہے کہ دین مؤجل اگر جلد ادا کردیا جائے تو اس صورت میں دین کا کچھ حصہ چھوڑنا اس وقت جائز ہے جب یہ چھوڑنا تعجیل(جلدی ادائیگی ) کے لیے شرط نہ ہو ، بلکہ تبرعاً دائن کچھ دین ساقط کردے، لیکن اگر یہ سقوط( دین میں کمی کرنا) تعجیل کے ساتھ عقد کے وقت شرط قرار دیا گیاہو ،تو اس صورت میں سقوط اور کمی جائز نہیں ،اس لیے کہ وہ مدت کے مقابلہ میں دین میں کمی کرتا ہے اور شرعاً مدت کے مقابلہ میں عوض نہیں آتا۔ پوچھے گئے سوال میں چونکہ 50 ہزار قسطوں میں دینے کے بجائے 45ہزار نقددینا خریدار کی طرف سے شرط ہے، لیکن چونکہ عقدکے وقت اس بات(جلدی ادائیگی کے بدلہ میں دین میں کمی) کی شرط نہیں لگائی گئی تھی اس لیےیہ صورت جائز ہے۔
حوالہ جات
1۔ فقہی مقالات (113/1) ط:مکتبہ میمن اسلامک پبلشرز 2۔"وکذلک المنع من الوضع بالتعجیل فی الدیون المؤجلۃ انما یکون اذا کا ن الوضع للدائن شرطا للتعجیل،اما اذا عجل المدیون من غیر شرط جاز للدائن ان یضع عنہ بعض دینہ تبرعا. "(بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ(32/1) ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب