021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خام مال بیچ کر اسی سے تیار مال خریدنے کا حکم
57697خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرا گارمینٹس مٹیریل کا کام ہے۔میں ایک پارٹی سے پھول بنواتا ہوں جو بچوں کے کپڑوں پر لگائےجاتے ہیں۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پھولوں میں جتنی آئیٹمز استعمال ہوتی ہیں وہ میں خود خرید کر پھر اس پارٹی کو دے دیتا ہوں ۔جب وہ تیار کرکے لے آتے ہیں تو مزدوری ان کو دے دیتا ہوں جو ہمارے درمیان پہلے سے طے ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ میرا ارادہ یہ ہے کہ آئندہ میں بازار سے آئیٹم خرید کر اس پارٹی کو ادھار بیچ دوں پھر جتنے پھول یہ تیار کریں گے وہ میں ان سے نقد خرید لوں۔اب ان کے ذمہ میں جو میرے پیسے تھے اتنے پیسے کاٹ کر باقی پیسے اس پارٹی کو دے دوں۔کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟ وجہ اس طرح کرنے کی یہ ہے کہ پہلے جو طریقہ تھا اس میں یہ لوگ مال بہت ضائع کرتے ہیں ہم اعتماد کر کے کام چلاتے رہے، لیکن آئندہ اس طرح کرنے کا ارادہ ہے۔برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ دوسری صورت جائز ہے۔شرعی اصطلاح میں اسے عقدِ استصناع کہتے ہیں۔استصناع "کاریگر سے کوئی ایسی چیز بنوانے کو کہتے ہیں جس میں عمل اور کاریگری کی ضرورت پڑتی ہو اور اس کو بنانے کے لیے کاریگر اپنے پاس سے خام مال استعمال کرے۔"البتہ ایسی صورت میں کاریگر اس بات کا پابند نہیں ہوگا کہ وہ خریدا ہوا مال آپ ہی کے کام میں استعمال کرے بلکہ وہ اپنی مرضی کے تحت آزاد ہوگا۔وہ صرف مطلوبہ صفات کے ساتھ چیز بنانے کا پابند ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 223) وأما شرعا: فهو طلب العمل منه في شيء خاص على وجه مخصوص يعلم مما يأتي، وفي البدائع من شروطه: بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته، وأن يكون مما فيه تعامل، وأن لا يكون مؤجلا وإلا كان سلما وعندهما المؤجل استصناع إلا إذا كان مما لا يجوز فيه الاستصناع، فينقلب سلما في قولهم جميعا. البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 185) فعلى هذا الاستصناع لغة طلب عمل الصانع وشرعا أن يقول لصاحب خف أو مكعب أو صفار اصنع لي خفا طوله كذا وسعته كذا أو دستا أي برمة تسع كذا ووزنها كذا على هيئة كذا بكذا وكذا ويعطي الثمن المسمى أو لا يعطي شيئا فيقبل الآخر منه الثاني في دليله وهو الإجماع العملي وهو ثابت بالاستحسان والقياس أن لا يجوز وهو قول زفر لكونه بيع المعدوم وتركناه للتعامل.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب