ایک مسئلہ کا شرعی حکم مطلوب ہے۔ کئی سال قبل پرچون کا کام میں ایک طویل عرصہ تک کرتا رہا۔اس کام کی وجہ سے آٹا ،چینی اور چاول وغیرہ کے فیکٹری مالکان یا گودام مالکان سے اچھے روابط ہیں ۔اب میرے پاس لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یار کسی اچھے فیکٹری والے سے بات کرادو مثلاً کبھی چاول کے لیے یا چینی وغیرہ کے لیے۔میں کہتا ہوں ٹھیک ہے۔اگر میں آپ کو آپ کے مطلوبہ معیار والے فیکٹری مالک سے رابطہ کروانے میں کامیاب ہوگیا اور آپ لوگوں کی آپس میں ڈیل کامیاب ہوگئی تو فی بوری کی خریداری پر میں آپ سے اتنا کمیشن لوں گا یہ کمیشن کبھی میں فکس کردیتا ہوں یعنی فی بوری سو روپے مثلاً اور کبھی فیصداً طے کرتا ہوں کہ ٹوٹل خریداری جتنے کی آپ اس سے کریں گے اس ٹوٹل اماؤنٹ کا 3 فیصد مجھے بھی دیں گے۔ کیا یہ معاملہ میرا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکور صورت کے مطابق شرعی اصطلاح میں آپ سمسار اور عرفی اصطلاح میں کمیشن ایجنٹ ہیں۔کمیشن ایجنٹ کے لیے متعین اجرت یعنی فکس مثلاً سوال کے مطابق فی بوری سو روپے اور فیصدی حصہ کے طور پر اجرت مثلاً سوال کے مطابق ٹوٹل خریداری کا تین فیصد، دونوں طرح اجرت مقرر کرنا جائز ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.