021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اجارہ میں متعین اور فیصدی حصہ کے طور پر اجرت مقرر کرنے کاحکم
57736اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میرا ارادہ ہے کہ میں کسی شخص کے ساتھ مضاربت کروں ۔ کیوں کہ میرے پاس کچھ پیسے ہیں میں خود کاروبار نہیں کرسکتا ۔جس شخص کو میں مضاربت کے لیے پیسے دے رہا ہوں وہ مجھے کہتا ہے کہ نفع میں بھی مجھے شریک کرو اور کچھ تنخواہ بھی مقرر کرو اگر چہ بہت معمولی ہو ۔ سوچ و بچار کے بعد میں نے اس سے کہا ہے کہ 10000 روپے اجرت کے طور پرماہانہ آپ اس کاروبار میں سے لے لیں اور جو نفع کاروبار میں ہوگا اس کا 30 فیصد بھی آپ لے لیں ، وہ اس پر تیار ہوگیا ہے اور میں بھی راضی ہوں ۔مگر ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ آپ کسی مفتی سے پوچھو پھر کام شروع کرو۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح سےہمارا معاملہ کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں ہے تو از راہِ کرم ایسی صورت بتائیں جو جائز بھی ہو اور ہم دونوں کے لیے اس میں رضامندی بھی ہوجائے مطلب کوئی نقصان نہ ہو جائے ہمیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مضاربت میں یہ جائز نہیں کہ مضارب کے لیے اس کے عمل کی کوئی تنخواہ بھی مقرر کی جائے اور منافع میں سے بھی اس کے لیے کوئی فیصدی حصہ مقرر کیا جائے ۔اس لیے مذکورہ طریقے پر آپ کا مضاربت کا عقد کرنا جائز نہیں ۔ البتہ آپ اس طرح بطور ملازم کسی کے ساتھ اجارے کا عقد کرسکتے ہیں کہ آپ متعین اجرت کے ساتھ ساتھ منافع میں فیصدی حصہ بھی اجرت کے طور پر طے کردیں۔مثلاً 10000 روپے فکس ماہانہ اجرت اور جو منافع مجھے اس کاروبار میں ہوگا اس کا 20 فیصد بھی تمہیں اجرت کے طور پر دوں گا۔اس طرح معاملہ کرنا بھی جائز ہے۔ البتہ اس طرح عقد کرنے کے لیے شرعاً ضروری ہوگا کہ آپ اس ملازم کے ڈیوٹی اور کام کے اوقات بھی مقرر کریں ۔اوقات مقرر کرنے کے بعد اسی وقت میں کام کرنا ملازم کی ذمہ داری ہوگی،اس کے علاوہ اوقات میں اس کو کام کرنے اور نہ کرنے کی آزادی ہوگی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 326) لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان… النتف في الفتاوى للسغدي (2/ 575) والعاشر لو كان طعام بين رجلين فقال احدهما لصاحبه احمله الى موضع كذا ولك في نصيبي من الاجر كذا او قال اطحنه ولك في نصيبي كذا من الاجر جاز ذلك في قول زفر ومحمد بن صاحب ولايجوز ذلك في قول ابي حنيفة وابي يوسف ومحمد. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 648) (وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب