اگر کسی ایسی جگہ نماز جمعہ شروع ہوجائے جہاں شرائط پوری نہ ہوں تو اس کو بند کرنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کسی ایسی جگہ نماز جمعہ شروع ہوجائے جہاں اس کی صحت کی شرائط(مثلاً شہر یا مضافات شہر، ظہر کا وقت، نماز جمعہ سے پہلے خطبہ کا ہونا، جماعت کا ہونا یعنی امام کے علاوہ کم از کم 3 آدمی ہو، نماز جمعہ کی ادائیگی کی عام اجازت ہو) پوری نہ ہو تو نماز جمعہ ہی ادا نہیں ہوگی اور ان پر ظہر کی نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔ اگر اس کو بند کرنا آپ کے اختیار میں ہو تو اس کو بند کرنا ضروری ہے۔ ورنہ فتنہ سے بچتےہوئے اس حوالے سے ذہن سازی کرنی چاہیے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ باقاعدہ بلدیاتی ادارے سے جمعہ کی منظوری لے لی جائے تو ایسی صورت میں اس جگہ جمعہ کو جاری بھی رکھا جاسکے گا۔
حوالہ جات
"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء… قوله ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوبا وأداء منها: ما هو في المصلى. ومنها ما هو في غيره والفرق أن الأداء لا يصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمها بعضهم فقال:
وحر صحيح بالبلوغ مذكر ... مقيم وذو عقل لشرط وجوبها
ومصر وسلطان ووقت وخطبة ... وإذن كذا جمع لشرط أدائها"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/137 ط:دار الفکر- بیروت)
"وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ… وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي اهـ فافهم"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/138 ط:دار الفکر- بیروت)
3-فتاوی دار العلوم دیوبندجلد5 ص70
4-نجم الفتاوی جلد ثانی ص526، 527