021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
60129/56
60129/56-3گروی رکھنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ہم نے کچھ عرصہ پہلے ایک گھر لیا تھا،اس کی قیمت کی ادائیگی کے لیے قرض بھی لیا تھا۔جس شخص سے قرض لیا تھا اس نے ہم سے سونے کی ایک بسکٹ گروی لی تھی جس کی قیمت قرض سے زیادہ تھی۔قرض خواہ نے کہا تھا کہ جب تم قرض ادا کرو گے تو یہ تمہیں واپس مل جائے گی۔گذشتہ دنوں اس کے گھر چوری ہوئی اوربقول اس کے ہماری وہ سونے کی بسکٹ بھی چوری ہوگئی ہے۔قرض خواہ کا مطالبہ ہے کہ بسکٹ تو امانت تھی وہ تو ضائع ہوگئی، اس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں ،تم مجھے میرا قرض ادا کرو۔ایسی صورت میں ہم دونوں پارٹیوں کے لیے شرعی کیا حکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل سے فون پر مزید تحقیق کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ قرض خواہ میرا اپنا بھائی ہے اور مجھے ذاتی طور پر گھر میں تحقیق کرنے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس کا اپنا سونا بھی چوری ہوا ہے اور دونوں کا سونا ایک ہی جگہ حفاظت سے رکھا ہوا تھا۔لہٰذا ایسی صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ جو چیز رہن رکھوائی جائے، وہ قرض اور گروی رکھوائی ہوئی چیز کی قیمت میں سے جو کم ہواتنی مقدار کی بقدر مضمون ہوتی ہے۔اگر ادھار کم ہو اور گروی رکھوائی ہوئی چیز کی قیمت زیادہ ہو تو جو اضافی قیمت ہے وہ امانت کے حکم میں ہوگیاور اس کا کوئی ضمان و تاوان نہیں دینا پڑے گا۔مثلاً آپ پر جو قرضہ تھا وہ ایک لاکھ روپے تھا اور جو چیز آپ نے گروی رکھوائی تھی اس کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تھی تو ایسی صورت میں اس چیز کے چوری ہونے کی صورت میں ایک لاکھ قرضہ تو اتر گیا لیکن باقی پچاس ہزار اس کے پاس امانت سمجھے جائیں گے،لہٰذا وہ اس کا ضامن نہیں ہوگا،اس لیے کہ مذکورہ صورت میں قرض خواہ کی طرف سے تعدی اور حدود سے تجاوز نہیں پایا گیا ، کیونکہ اس نے اپنی چیز کی طرح اس کی حفاظت کا اہتمام کیا تھا۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 63) وهو مضمون بالأقل من قيمته ومن الدين) فلو هلك وقيمته مثل دينه صار مستوفيا دينه، وإن كانت أكثر من دينه فالفضل أمانة وبقدر الدين صار مستوفيا، وإن كانت أقل صار مستوفيا بقدره ورجع المرتهن بالفضل. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 481) (فإن) هلك و (ساوت قيمته الدين صار مستوفيا) دينه (حكما، أو زادت كان الفضل أمانة) فيضمن بالتعدي (أو نقصت سقط بقدره ورجع) المرتهن (بالفضل) لأن الاستيفاء بقدر المالية (وضمن) المرتهن (بدعوى الهلاك بلا برهان مطلقا) سواء كان من أموال ظاهرة أو باطنة. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 479) (وهو مضمون إذا هلك بالأقل من قيمته ومن الدين)… ملتقى الأبحر (ص: 271) وهو مضمون بالأقل من قيمته ومن الدين، فلو هلك وهما سواء صار المرتهن مستوفيا لدينه وإن قيمته أكثر فالزائد أمانة وإن كان الدين أكثر سقط منه قدر القيمة وطولب الراهن بالباقي…
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب