کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
دوبھائی ہیں جوایک گھر میں رہتے ہیں لیکن جائداد اورہرچیز میں الگ الگ ہیں،دونوں کی بیویاں چچازاد بہنیں ہیں، اوردونوں ہی بڑی نیک خواتین ہیں،ایک بھائی کی دو بیٹے اورایک بیٹی ہے لیکن دوسرے بھائی کی کوئی اولاد نہیں ہے تو جس بھائی کی اولاد ہے اس کا تیسرا بیٹا ہوا تو اس نے اپنے بھائی کو دیا، بھائی کی بیوی یہ جانتی تھی کہ یہ رشتہ ٹھیک نہیں ہے،آپ فرمائیں کیا یہ رشتہ ٹھیک ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اسلام میں ابوّت کا رشتہ پالنے والے باپ سے قائم نہیں ہوتا،اس لیے حکم ہے کہ بچےکواپنے اصلی باپ ہی طرف کی منسوب کیاجائے، اس سلسلے میں اللہ تعالی کاصریح اورواضح ارشاد موجودہے کہ انہیں (منہ بولے بیٹوں کو)ان کے (حقیقی)والد کے نام سے ہی پکارو!لہذا مسئولہ صورت میں جب اصلی والد معلوم ہے تو نسبی رشتہ اسی سے ہوگا،پالنےوالے والد سے نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
وفی تفسیر الوجيز للواحدي (ص: 858) :
{ادعوهم لآبائهم} أي: انسبوهم إلى الذين ولدوهم {هو أقسط عند الله} أعدل عند الله {فإن لم تعلموا آباءهم} من هم {فإخوانكم في الدين} أي: فهم إخوانكم في الدين {ومواليكم} وبنو عمكم وقيل: أولياؤكم في الدين {وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به} وهو أن يقول لغير ابنه: يا بني من غير تعمد أن يجريه مجرى الولد في الميراث وهو قوله: {ولكن ما تعمدت قلوبكم} يعني: ولكن الجناح في الذي تعمدت قلوبكم.