021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پوری ڈیوٹی نہ کرنا اور تنخواہ پوری لینے کا حکم
60308اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میرا دوست ایک گاڑمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے۔اس کی ڈیوٹی منیجر کے آفس میں ہوتی ہے جہاں منیجر کی موجودگی میں تو کام ہوتا ہے،ورنہ زیادہ کام نہیں ہوتا ۔میرا دوست اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے ذاتی کام کے لیےفیکٹری سےباہر جاتا ہے۔اسی طرح وہ ڈیوٹی پر بھی لیٹ پہنچتاہےاور ڈیوٹی ٹائمنگ مکمل ہونے سے پہلےفیکٹری سے نکل جاتا ہے۔کیا اس طرح کام کرنے سے اس کاپوری تنخواہ لینا شرعاً جائز ہے؟ اگر اس کا پوری تنخواہ لینا جائز نہیں ہے تو پھر اب تک اس طرح جو تنخوا لیتا رہا ہے اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کےدوست کےلئے ضروری ہے کہ جن شرائط اور معاہدوں کے ساتھ اس کا فیکٹری میں تقرر ہواہے ان کے مطابق اپنے ذمہ داری اور فرائض کو سرانجام دینے کا اہتمام کرے۔ملازم کے لئے ڈیوٹی کے اوقات میں فیکٹری مالک کی اجازت کے بغیر اپنے ذاتی کام کرنا یا مقررہ وقت پر حاضر ہونے میں غیر معمولی تاخیر کرنا یا مقررہ وقت سے پہلے چلے جانا جائز نہیں ہے،لہٰذا ڈیوٹی کے دنوں میں آپ کادوست جتنے اوقات میں حاضر نہیں ہواہے یا اس نےاپناذاتی کام کیا ہےیا وقت سے پہلے چلاگیا ہے،اُتنے اوقات کی تنخواہ لینا اس کےلئے جائز نہیں ۔یہ تنخواہ مالکانِ ملز کو واپس کرے،نیز اس پر لازم ہے کہ اس کوتاہی اور خیانت پر صدقِ دل سے توبہ اور استغفار کرے اور آئندہ اس سے بچنے کا پورااہتمام کرے۔ ملازم نے مقررہ وقت پورا نہ کرنے کے باوجود خلاف ضابطہ جو تنخواہ وصول کرلی ہے اس کی تلافی کی صورت یہ ہے کہ جن اوقات میں وہ ڈیوٹی پردیر سے آیاہےیا وقت سے پہلے چھٹی کی ہے ،یا ڈیوٹی کے اوقات میں اپنے ذاتی کام کئے ہیں ،یا بالکل حاضر نہیں ہواہے، ان اوقات کی جتنی تنخواہ بنتی ہے اس کا حساب لگا کر مذکورہ ادارے میں جمع کرادے ،البتہ اگر فیکٹری کے مالک کو پوری صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور وہ ان اوقات کی تنخواہ اپنی خوشی سے معاف کرنا چاہے تو معاف کرسکتاہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:قوله :(وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (حاشية ابن عابدين :6 / 70) الأجير الخاص يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع من العمل وإذا امتنع فلا يستحق الأجرة. (مجلة الاحکام العدلیۃ:1 / 82)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب