021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنگل سے کاٹ کر جمع کی ہوئی لکڑی پر زکوۃ کا حکم
60309زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ہمارے ماموں جوکہ گاؤں بیرم گلی(ایبٹ آباد) میں رہائش پذیر ہیں ۔وہ جنگلات سے لکڑی کاٹ کر لاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اسے بازار میں بیچ کر آتے ہیں،کبھی گاؤں میں ہی کسی کو فروخت کر دیتے ہیں۔کیا جنگل سے کاٹ کربیچنے کے لیے لائی ہوئی لکڑی پر زکوۃ واجب ہوتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لکڑیوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ لکڑیوں پر زکوٰۃ واجب ہونے کیلئے ملکیت میں ہونے کے ساتھ ان کا مالِ تجارت ہونا بھی ضروری ہے،اور مالِ تجارت کی تعریف یہ ہے کہ "وہ مال جو عقدِ معاوضہ کے ذریعہ ملکیت میں آئےاور اسی عقدِ معاوضہ کے وقت اس کو آگے فروخت کرنی کی نیت ہو"جبکہ مذکورہ لکڑیاں اگرچہ فروخت کرنے کی نیت سےجنگل سے کاٹ کر لائی ہیں لیکن چونکہ وہ کسی عقد معاوضہ کے ذریعہ ملکیت میں نہیں آئیں ،بلکہ اپنے لئےجمع کرنے کی وجہ سے ملکیت میں آئی ہیں،اسلئے وہ مالِ تجارت کےحکم میں نہیں ہیں اور ان پر زکوٰۃ بھی واجب نہیں ہے ۔البتہ جب وہ لکڑیاں فروخت ہوجائیں گی تب اُن سے حاصل ہونے والی رقم پر شرعی اصولوں کے مطابق زکوٰۃ واجب ہوگی۔ واضح رہے کہ مذکورہ لکڑیاں کاٹ کر لانے والے کی ملکیت میں بھی صرف اسی صورت میں آئیں گی جبکہ وہ درخت مباحِ عام ہوں،کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہ ہوں، یعنی اُن کو کسی شخص نے اُگایا نہ ہواور نہ ہی کوئی ان جنگلات میں پانی دے کر انکی نگرانی کرتا ہوبلکہ ان جنگلات کے درخت وغیرہ خودبخود اُگے ہوں اور مباحِ عام ہوں۔ ) سنن أبى داود:2/ 3)
حوالہ جات
عن سمرة بن جندب قال أما بعد فإن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يأمرنا أن نخرج الصدقة من الذى نعد للبيع. ) شرح أبي داود للعيني :6/ 219) قوله: "من الذي نعد للبيع " من الإعداد، وهو: التهيئة يقال: أعدهلأمر كذا: هيأه له، وبالحديث استدل العلماء أن المال الذي يعد للتجارة,إذا بلغت قيمته نصابا تجب فيه الزكاة من أي صنف كان. ) البحر الرائق:2/ 225) ثم نية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة والإسامة ثم نية التجارة قد تكون صريحا، وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك به للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة، وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو من العروض فلو نوى أن يكون للبذلة لا يكون للتجارة وإن كان الثمن من النقود، فخرج ما ملكه بغير عقد كالميراث فلا تصح فيه نية التجارة إذا كان من غير النقود إلا إذا تصرف فيه فحينئذ تجب الزكاة كذا في شرح المجمع للمصنف. )الدر المختار:2/ 273) (وما ملكه بصنعه كهبة أو وصية أو نكاح أو خلع أو صلح من قود)…(ونواه لها كان له عند الثاني والأصح) أنه (لا) يكون لها بحر عن البدائع. وفي أول الأشباه: ولو قارنت النية ما ليس بدل مال بمال لا تصح على الصحيح.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب