021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نقدخرید کر قیمت نہ ہونےکی صورت میں بعد میں ادائیگی کی مہلت طے نہ کرنا
62975خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

السلام علیکم!محترم مفتی صاحب ہمارےہاں ایک مولوی صاحب بیان کےلیےآئےتھےاوران کابیان خریدوفروخت اورآپس میں لین دین کےبارےمیں تھا،انہوں نےکہاکہ اگرادھارپرخریدو فروخت ہوتوpayment(ادائیگی)کےلیےدن یاتاریخ بتاناضروری ہے،اگرنہیں بتایاتویہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔لیکن جب میں اپنےبھائی کےساتھ رات کےوقت دکان پرہوتاہوں اوربھائی کا کوئی دوست اور جان پہچان والاآتاہے اورچیز خریدلیتاہے لیکن پیسےدیتےوقت کبھی اس کےپاس پیسے کم ہوتے ہیں اورکبھی گھر میں پرس بھولنےکی وجہ سےجیب میں پیسےنہیں ہوتےتووہ میرے بھائی سےکہہ دیتاہےکہ پیسےبعدمیں دیدوں گااوربھائی بھی کہہ دیتاہے کہ کوئی بات نہیں،بعد میں دیدینا توکیااس طرح بیچنا ٹھیک ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مولوی صاحب نےجومسئلہ بتایاتھاوہ اس صورت میں ہےجبکہ شروع ہی سےطےہوکہ پیسے بعدمیں دیں گے،اس صورت میں قیمت اداکرنےکی تاریخ متعین ہوناضروری ہے۔لیکن اگر خریدتےوقت پیسے بعدمیں دینےکی شرط نہ ہوتواس صورت میں یہ سودانقدکا ہوتاہے،ادھار کانہیں اوراس کےبعداگر خریدار کہتاہےکہ پیسےبعدمیں دیدوں گااوربیچنےوالابھی راضی ہوتویہ ادھارخریدوفروخت نہیں ہے۔بائع کی طرف سےمہلت ہےاوراس میں مدت معلوم ہونابھی ضروری نہیں۔وہ جب چاہےیہ رقم مانگ سکتا ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃعلی المرغینانی رحمہ اللہ:قال: ومن باع بثمن حال ثم أجله أجلا معلوما صار مؤجلا؛ لأن الثمن حقه، فله أن يؤخره تيسيرا على من عليه، ألا ترى أنه يملك إبراءه مطلقا ،فكذا مؤقتا. (الهداية :3/ 60) قال العلامۃالکاسانی رحمہ اللہ:ولو باع بثمن حال، ثم أخر إلى الآجال المتقاربة جاز التأخير، ولو أخر إلى الآجال المتفاحشة لم يجز، والدين على حاله حال ،فرق بين التأجيل والتأخير، ولم يجوز التأجيل إلى هذه الآجال أصلا، وجوز التأخير إلى المتقارب منها، ووجه الفرق: أن التأجيل في العقد جعل الأجل شرطا في العقد، وجهالة الأجل المشروط في العقد، وإن كانت متقاربة توجب فساد العقد؛ لأنها تفضي إلى المنازعة، فأما التأخير إلى الآجال المجهولة متقاربة فلا تفضي إلى المنازعة؛ لأن الناس يؤخرون الديون إلى هذه الآجال عادة، ومبنى التأخير على المسامحة، فالظاهر أنهم يسامحون، ولا ينازعون، وما جرت العادة منهم بالتأخير إلى آجال تفحش جهالتها بخلاف التأجيل؛ لأن ما جعل شرطا في البيع مبناه على المضايقة، فالجهالة فيها وإن قلت تفضي إلى المنازعة، ولهذا لا يجوز البيع إلى الآجال المتقاربة. (بدائع الصنائع :5/ 179)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب