السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کے بارے میں :
ایک شخص نے زمین خرید لی اور اس کے نام اس سے پہلے بھی زمین تھی، جس کی وجہ سے یہ زمین اس کے نام نہیں ہوسکتی تھی تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کے نام کردی اور پھر اس کو حکومت کی طرف سے سو کنال کی زمین اور ملی یہ اس نے اپنےدوسرے بیٹے کے نام کردی ۔اسی میں سے اس نے ساٹھ کنال خود بیچی بقیہ ساری زمین تا حیات والد کے قبضہ میں رہی اور اس کی فصل بھی خود لیتے رہے ۔فوت ہونے کے بعد بیٹوں نے جب جائیداد آپس میں تقسیم کرنا شروع کی ،ان زمینوں کے کچھ انتقالات بڑے دو بیٹوں کے نام تھے اور انھوں نے یہ زمین اپنے قبضہ میں لےلی ،جبکہ ان کو والد نے ساری زندگی قبضہ نہیں دیا اور بڑے بیٹوں کو اپنے نام انتقال ہونے کا علم بھی نہیں تھا، تواب یہ زمین جو بڑے دو بیٹوں کے نام ہے اور ایک دوکان بھی جو جو دوسرے بیٹے کے نام ہےاوربڑے بھائی چھوٹے بھائی اور بہنوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے۔ دوسرے ورثاء (چھوٹے بہن بھائی) کا کہنا ہے کہ کیا اس میں ہماراحصہ بنتا ہے یا نہیں ؟ جبکہ بھائیوں کو والد کی زندگی میں یہ زمین اور دکان نہیں ملی تھی، محض کاغذات ان کےنام پر ہیں، اس میں دوسرے ورثاء کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
محض کاغذات نام پر کرا دینے سے ملکیت نہیں آتی، بلکہ اس کےلیے باقاعدہ ہبہ کر کے حوالہ کرنا ضروری ہے،لہذامذکورہ صورت میں صرف کاغذات بیٹوں کےنام کروانے سے وہ مالک نہیں بنے تھے، بلکہ والد خود مالک تھا،اس لیے مذکورہ صورت میں زمین اور دوکان ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثہ کے درمیان وراثت کے طور پرشریعت کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم ہونگے۔
حوالہ جات
"ویمکن أن یخرّج علی ذالک ما یقع کثیراًمن أنّ الأب یہب داراً لإبنہ ، وھو ساکن معہ فیہا بمتاعہ.فلو أذن الأب إبنہ بقبض متاعہ ودیعۃً ، وسّجل الدار باسم ابنہ بعد الہبۃ ، وصرّح بأنّ کونہ یسکن الدار بعد ذالک موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریہ، وقبِل ذالک الإبن ، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الہبۃ، واللہ سبحانہ اعلم."
(فقہ البیوع1/400ط: مکتبۃ معارف القرآن)
"فالذی یظھر انہ لا ینبغی ان یعتبر التسجیل قبضاً ناقلاً للضمان فی الفقہ الاسلامی، الا اذا صاحبتہ التخلیۃ بالمعنی الذی ذکرناہ فیما سبق۔"
(فقہ البیوع1/406ط: مکتبۃ معارف القرآن)
(الدر المختار: 434)