021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجدمیں دنیاوی باتیں کرنے کاحکم
60765جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

آج کل عام طورپررواج ہے کہ مسجدمیں نمازکے بعدبیٹھ کرگپ شپ لگانااوردنیاوی باتوں میں مشغول ہونا،ہنسی مذاق کرنا یاکھاناپینابغیرکسی ضرورت کےجائزہے یانہیں؟ دوسرایہ کہ ان کاموں کے لئےنفلی اعتکاف کاسہارالیناکیساہے؟کیانفلی اعتکاف کی نیت سے بغیرضرورت کے مسجدمیں کھاناپینا اورگپ شپ لگاناجائزہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجدمیں دنیاوی باتوں کی غرض سے بیٹھنادرست نہیں،کیونکہ مسجددنیاوی امورکے لئےنہیں بنائی گئی ہے ،بلکہ اللہ کےذکراورعبادت کے لئے بنائی گئی ہے،اس لئے ہرایساشخص جومسجدمیں نمازکے لئے یانفلی اعتکاف کی نیت سے موجودہےتواسے بھرپورکوشش کرنی چاہیےکہ مسجدمیں دنیاوی باتوں اور کھانےپینے وغیرہ سے احترازکرے اوراللہ کے ذکرمیں مشغول رہے،البتہ اگردنیاوی باتیں کرنے کی ضرورت پیش آجائےتوایسی باتوں سے توبہرصورت اجتناب لازم ہےجومنکرات پرمشتمل ہوتی ہیں جیسے غیبت ،فحش باتیں وغیرہ،اورمباح باتوں میں تفصیل یہ ہےکہ بوقت ضرورت اور بقدرضرورت حدتک گنجائش ہے،بلاضرورت باتیں کرنایاضرورت سے زیادہ کرنااس صورت میں بھی مکروہ ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (ج 5 / ص 99): ”الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى ، كذا في التمرتاشي هندية وقال البيري ما نصه : وفي المدارك - { ومن الناس من يشتري لهو الحديث } المراد بالحديث الحديث المنكر كما جاء " { الحديث في المسجد يأكل الحسنات كما تأكل البهيمة الحشيش } ، انتهى .فقد أفاد أن المنع خاص بالمنكر من القول ، أما المباح فلا . “ رد المحتار (ج 27 / ص 74): ”( وقوله يكره الكلام في المسجد ) ورد " { أنه يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب } " وحمله في الظهيرية وغيرها على ما إذا جلس لأجله وقد سبق في باب الاعتكاف وهذا كله في المباح لا في غيره فإنه أعظم وزرا. “ رد المحتار (ج 8 / ص 85): ”( قوله وهو ) أي المباح عند عدم الاحتياج إليه ط ( قوله إنه مكروه ) أي إذا جلس له كما قيده في الظهيرية ذكره في البحر قبيل الوتر . وفي المعراج عن شرح الإرشاد : لا بأس بالحديث في المسجد إذا كان قليلا فأما أن يقصد المسجد للحديث فيه فلا ا هـ وظاهر الوعيد أن الكراهة فيه تحريمية . “
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب