021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی تعمیرنو کے بعد اس کے بچے ہوئے حصے کا حکم
61263/57وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

گاؤں میں ایک مسجد تھی جو زلزلے میں شہید ہو گئی تھی،اب دوبارہ اس کی تعمیر ہوئی ہے،لیکن پرانی مسجد کا کچھ حصہ باہر رہ گیا ہے اور لوگ اس جگہ میں چپل اتارتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اس جگہ میں چپل اتارنا یا کوئی اور دنیوی کام کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مسجد سے مراد وہ جگہ ہے جو نماز کے لیے خاص تھی تو ایسا کرنا درست نہیں،کیونکہ مذکورہ جگہ ہمیشہ کے لیے مسجد کا حصہ ہے،اس کے ساتھ اب بھی ادب و احترام کا وہی معاملہ کرنا چاہیے جو پہلی تعمیر کے وقت کیا جاتا تھا۔
حوالہ جات
قال الکاسانی رحمہ اللہ:” ولو جعل داره مسجدا فخرب جوار المسجد أو استغنى عنه لا يعود إلى ملكه، ويكون مسجدا أبدا عند أبي يوسف.“(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :6/ 221) وفی الھندیۃ: إن أرادوا أن يجعلوا شيئا من المسجد طريقا للمسلمين فقد قيل: ليس لهم ذلك وأنه صحيح، كذا في المحيط.(الفتاوى الهندية :2/ 457) قال الحصکفی رحمہ اللہ:(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة ،(وبه يفتي) .حاوي القدسي. وقال الشامی رحمہ اللہ: قوله: (ولو خرب ما حوله) :أي ولو مع بقائه عامرا، وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به، وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر .قوله: (عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب