ما نسہرہ کے ایک گاؤں میں نماز جمعہ 1986ء سے ہو رہی ہے۔جمعہ کا اجراء ایک مفتی صاحب نے کیا تھا۔کہا یہ جاتا ہے کہ جس وقت ان سے اجراء جمعہ سے متعلق دریافت کیا گیا تو اس وقت ایک دور کے بازار کو اس گاؤں کا بازار قرار دیا اور آبادی بھی ایسے ہی بڑھا چڑھا کر بتائی گئی،جبکہ اس گاؤں اور بازار کے درمیان 9 یا 10 کلو میٹر کی مسافت ہے اور اذان کی آواز بھی اس گاؤں تک پہنچنا ناممکن ہے۔جمعہ میں شریک افراد کی تعداد 200 سے زائد نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ گاؤں میں صرف دو دکانیں ہیں،ان سے صرف کھانے پینے کی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں،آبادی 150 افراد پر مشتمل ہے اور مضافات کے گاؤں کو ملائیں تو ایک ہزار تک پہنچ جائے گی،ایک چھوٹا سا کلینک ہے اور ایک ہائر سکینڈری سکول بھی ہے۔
تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ آیا اس گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو پھر کن شرائط کی بناء پر جمعہ جائز ہوتا ہے؟
مذکورہ گاؤں کے پڑوس میں ایک گاؤں میں عیدین کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے،جبکہ جمعہ پورا سال نہیں پڑھا جاتا۔اس مسئلہ کی بھی وضاحت فرمائیں!
تنقیح
1. جمعہ کی نماز میں دو سو آدمی شریک ہوتے ہیں جبکہ گاؤں کی کل آبادی ایک سو پچاس ہے،یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
2. ان مفتی صاحب نے جمعہ کس بناء پر شروع کیا تھا؟اگر اس بارے میں کوئی فتوی ہو تو اس کی نقل بھی لف کریں!
3. ساتھ والے گاؤں میں عید کس بناء پر شروع کی گئی؟اگر فتوی ہو تو اس کی نقل بھی لف کریں؟
جوبِ تنقیح
1. ایک سو پچاس بالغ مردوں کی تعداد لکھی تھی،عورتوں اور بچوں کو ملایا جائے تو تقریباً ساڑھے چار سو تک پہنچ جاتی ہے۔
2. .3جمعہ کا اجراء تو فتوی کی بناء پر کیا گیا تھا،لیکن طویل عرصہ گزر جانے کی وجہ سے تلاش کے باوجود وہ فتوی مل نہیں سکا۔اس طرح دوسرے گاؤں والوں سے بھی کوئی فتوی نہیں مل سکا۔
باقی بات یہ ہے کہ میں ایک طالبِ علم ہوں،میرا مقصد فتنہ پھیلانا نہیں ہے،بلکہ اپنے لیے شرعی حکم معلوم کرنا ہے کہ کیا میں اس جگہ میں جمعہ کی نماز پڑھوں یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ائمہ احناف کے نزدیک گاؤں میں جمعہ جائز نہیں۔جمعہ کی صحت کی بنیادی شرط مصر یا قصبہ ہے،اور قریہ کبیرہ(بڑے گاؤں) کو بھی قصبے کے حکم میں شمار کرتے ہیں۔
مصر(شہر) کی راجح تعریف وہ ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے،یعنی ایسی جگہ جہاں ایک سے زیادہ بازار اور گلیاں ہوں،اور پولیس تھانہ ہویاحکومت کی طرف سے لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے کوئی مقرر ہو۔
اور مصر(شہر) کے ارد گرد کا وہ علاقہ جو اس کے قریب ہو اور شہر کی ضروریات ،مثلا ریلوے اسٹیشن،فوجی چھاؤنی اور گراؤنڈ وغیرہ کے طور پر استعمال ہوتا ہو،اس کو فقہی اصطلاح میں فناءشہر (مضافات) کہا جاتا ہے ، اس میں بھی جمعہ جائز ہے۔
ایسا بڑا گاؤں جہاں اکثر مکانات اور گلیاں پختہ ہوں،دو رویہ دکانیں ہوں اور ضرورت کی تمام اشیاء جن میں موجود ہوں،اس گاؤں کو قصبہ اور قریہ کبیرہ میں شامل کرکے اس میں بھی جمعہ کو جائز قرار دیا گیا ہے
1. اس تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر سوال میں مذکورہ گاؤں کی حالت یہی ہے جو سائل نے ذکر کی ہے تو اس میں جمعہ کی نماز درست نہیں،کیونکہ نہ تو اس کو مصر کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی مصر کے مضافات میں شمار کیا جا سکتا ہے،اس لیے کہ یہ گاؤں بازار سے بہت دور ہے،اور آبادی بھی اتنی کم ہے کہ قصبہ یا قریہ کبیرہ میں شامل کرنا بھی مشکل ہے،البتہ اگر ایسی جگہ پر حاکمِ وقت)ضلع کا ڈی سی یا اے سی) سے جمعہ کے اجراء کی باضابطہ اجازت لے لی جائے تو پھر جمعہ درست ہو جائے گا۔
اگر یہ صورت اختیار نہ کی جائے تو پھر اگرحکمت عملی سے سمجھا بجھا کر فتنے کے بغیراسے روکا جا سکتا ہے تو روکنا ضروری ہے،اور اگر روکنے سے فتنے کا خدشہ ہو تو خاموش رہنا جائز ہے،تا ہم خود شدید مجبوری کے بغیر جمعہ کی نماز میں شریک نہ ہوں،بہتر یہ ہے کہ شہر جا کر جمعہ پڑھیں ۔
2. قریبی گاؤں میں عید کی نماز پڑھنا درست نہیں،کیونکہ مصر(شہر)کی شرط جمعہ و عیدین دونوں کے لیے ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ:” أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ،ومن كان ساكنا في توابعه ،وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه ،فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر، ولا يصح أداء الجمعة فيها . “(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :1/259 )
وقال الحصکفی رحمہ اللہ:” وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود .وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه .(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي“.
وقال الشامی رحمہ اللہ :”قوله :( وظاهر المذهب إلخ) قال في شرح المنية:والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود .وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق ،وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره، يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث ،وهذا هو الأصح“ اهـ
وقال ایضاً:”وعبارة القهستاني: تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق .قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة ؛لأن هذا مجتهد فيه، فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب ،كما في المضمرات. والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسی .اهـ فافهم .والرستاق القرى،كما في القاموس.
وقال أیضاً:” وكما أن المصر أو فناءه شرط جواز الجمعة فهو شرط جواز صلاة العيد. “اهـ.
قوله :(والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة ،وكذا محرر المذهب الإمام محمد ،وبعضهم قدره بها، وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ،ميل، ميلان ،ثلاثة، فرسخ، فرسخان، ثلاثة ،سماع الصوت ،سماع الأذان .والتعريف أحسن من التحديد ؛لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر، وإنما هو بحسب كبر المصر وصغرہ.(الدرالمختار مع ردالمختار:3/6-8 )