کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو یہ کہا کہ اگر فلاں گھر سے تو نے کچھ چیز لائی تو تجھے تین طلاق۔پھر اس کی بیوی نے چھوٹی بچی کو اس گھر میں کسی چیز کے لیے بھیجا اور وہ بچی اس گھر سے وہ چیز لے آئی۔سوال یہ کہ کیا بچی کے اس گھر سے چیز لانے کی وجہ سے اس شخص کی بیوی پر تین طلاق واقع ہو گیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بچی کا اس گھر سے چیز لانا چونکہ اس عورت کے حکم سے تھا اورعرفاً خواتین خود چیزیں نہیں لاتیں،بلکہ بچوں سے منگواتی ہیں،مرد کی ناراضگی بھی چونکہ اسی گھر سے ہے،اِس لیے اس گھر سے کسی چیز کے لانے سے منع کرنا مقصود معلوم ہوتا ہے،نیز فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ مامور آمر کے حکم سے جو بھی تصرف کرے گا وہ آمر ہی کی طرف سے شمار ہوگا،لہذا اِس قاعدے کی رو سے اس شخص کی بیوی کو تین طلاقٰیں واقع ہو جائیں گی۔
حوالہ جات
فی الھدایۃ: قال: ” ومن حلف لا يخرج من المسجد، فأمر إنسانا ،فحمله فأخرجه حنث ؛لأن فعل المأمور مضاف إلى الآمر، فصار كما إذا ركب دابة فخرجت .ولو أخرجه مكرها لم يحنث ؛لأن الفعل لم ينتقل إليه لعدم الأمر . ولو حمله برضاه لا بأمره لا يحنث في الصحيح؛ لأن الانتقال بالأمر لا بمجرد الرضا“. (الهداية: 2/ 323)
فی الھندیۃ: قال لها:” إن رفعت من كيسي دراهم فأنت طالق“. فحلت رأس الكيس وأمرت ابنتها فرفعت ،قال في الكتاب: أخاف أن تطلق. اتهم امرأة برفع دراهمه ،فقال لها بالفارسية:” اكرازدرم من توبرداري فأنت طالق ثلاثا “.ثم إنها وجدت دراهم زوجها في منديل، فرفعت وأعطت امرأة وقالت لها: ارفعي منها شيئا فرفعت المأمورة بعض الدراهم ودفعته إلى الآمرة وقع الطلاق (الفتاوى الهندية :1/436، 437،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)