سوال: ہمارے ہاں یہ عام ہے کی آڑھتی کپاس تولتے ہوئے ٹاٹ کے وزن کے مقابلے آدھاکلو کاٹ کرتے ہیں ۔حالانکہ اس ٹاٹ کا وزن بمشکل چار سو گرام ہو گا جب ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ سب ایسا کرتے ہیں ہم سے بھی بڑے آڑھتی اور فیکٹری والے یہ کاٹ لیتے ہیں ۔کیاایسا کرنا جائز ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عام حالات میں شرعی حکم یہ ہے کہ جتنا برتن (جس میں چیز تولی جارہی ہے)کا وزن ہےاتنا ہی کاٹ کیا جائے ۔کم یا زیادہ کاٹ جائز نہیں ۔لیکن اگر کسی خاص معاملے میں ہر مرتبہ برابری کو یقینی بنانا حرج کا باعث ہو اور اس بات کا عام عرف ہو گیا ہو کہ لوگ اس معاملے میں ایک خاص اندازے سے کٹوتی کرتے ہوں اور عام طور پر لوگ اس معمولی کمی بیشی کی پرواہ بھی نہ کرتےہوں تو اس کی شرعاً گنجائش ہو گی۔
مذکورہ صورت میں چونکہ ہر بار ٹاٹ کا وزن کرنے میں حرج ہے اور یہ عام عرف بھی بن چکا ہے اور لوگ اس معمولی کمی کی پرواہ بھی نہیں کرتے، لہذا ایسا کرنا شرعاً درست ہے۔
البتہ عام معاملات میں جہاں ایسا عرف نہیں برتن وغیرہ کو تول کر برابر کا ٹنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 172)
فسد أيضا بيع (زيت على أن يوزن بظرفه ويطرح عنه بكل ظرف كذا رطلا بخلاف شرط طرح وزن الظرف)
شرح القواعد الفقهية ــ للزرقا (ص: 88)
المشقة تجلب التيسير لأن الحرج مدفوع بالنص ولكن جلبها التيسيرمشروط بعدم مصادمتها نصاً فإذا صادمت نصاً روعي دونها ( ر الأشباه والنظائر لابن نجيم )
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 419)
لأن القليل مغتفر
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 177)
وملخصه: أن النص معلول بالعرف فيكون المعتبر هو العرف في أي زمن كان ولا يخفى أن هذا فيه تقوية لقول أبي يوسف فافهم.
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم