021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوة کے مال سے غریب بچیوں کے جہیز کا انتظام کرنا
63655زکوة کابیانمستحقین زکوة کا بیان

سوال

سوال:آج کل غریب آدمی کے لیے بچی کی شادی کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے،اگر لڑکی کچھ جہیز لے کر نہ جائے تو لڑکے والے اسے جینے نہیں دیتے،لہذا اب غریب آدمی کو بھی بچی کو کچھ نہ کچھ جہیز دینا ہی پڑتا ہے،اللہ پاک نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں خاندان میں اور آس پاس نظر رکھتا ہوں،جب بھی کسی غریب بچی کی شادی ہوتی ہے تو میں اپنے جاننے والے صاحبِ حیثیت لوگوں امداد لیتا ہوں جو کہ اکثر زکاة کی صورت میں ہوتی ہے،اس امداد سے بچی کے جہیز کی ضروری ضروری چیزیں بنالی جاتی ہیں،میرا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے: ا۔پہلے تسلی کرلیتا ہوں کہ وہ بچی صاحب نصاب نہیں ہے۔ ۲۔بالفرض پہلی مرتبہ پچاس ہزار روپے اکٹھے ہوئے تو لڑکی کے والدین کو یہ کہہ کر دے دیتا ہوں کہ یہ صرف لڑکی کے جہیز کے لیے ہیں،پھر اس رقم سے جو جہیز کا سامان خریداجاتا ہے اس کی نگرانی بھی کرتا ہوں۔ ۳۔جب یہ رقم ختم ہوجاتی ہے،پھر مزید دیتا ہوں،کیونکہ تقریبا دو سے اڑھائی لاکھ تک کا سامان بنتا ہے اور اتنے پیسے ایک ہی مرتبہ نہیں ملتے۔ برائے مہربانی مندرجہ بالا طریقہ میں اگر کوئی بات قابل اصلاح ہے تو اصلاح فرمادیں اور یہ بھی فرمادیں کہ آیا میرا یہ عمل باعثِ اجر بھی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کا طریقہ کار درست ہے،البتہ یہ خیال رہے کہ اس رقم سے لڑکی کے لیے صرف ضرورت ہی کی اشیاء خریدی جائے،سونا،چاندی یا ایسی غیر ضروری اشیاء کے خریدنے گریز کیا جائے جن کے استعمال کی سال بھر میں نوبت نہ آتی ہو،کیونکہ اگر اس طرح کی ضرورت سے زائد اتنی چیزیں لڑکی کی ملکیت میں جمع ہوگئی جن کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو پھر زکاة کی رقم سے اس کی مزید امداد جائز نہ ہوگی۔ نیزغریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا،ان کے کام آنا بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے،اس کا اجر ان شاء اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں ضرور ملے گا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (2/ 348): "قلت: وسألت عن المرأة هل تصير غنية بالجهاز الذي تزف به إلى بيت زوجها؟ والذي يظهر مما مر أن ما كان من أثاث المنزل وثياب البدن وأواني الاستعمال مما لا بد لأمثالها منه فهو من الحاجة الأصلية وما زاد على ذلك من الحلي والأواني والأمتعة التي يقصد بها الزينة إذا بلغ نصابا تصير به غنية، ثم رأيت في التتارخانية في باب صدقة الفطر: سئل الحسن بن علي عمن لها جواهر ولآلي تلبسها في الأعياد وتتزين بها للزوج وليست للتجارة هل عليها صدقة الفطر؟ قال: نعم إذا بلغت نصابا. وسئل عنها عمر الحافظ فقال لا يجب عليها شيء. اهـ. مطلب في الحوائج الأصلية، وحاصله ثبوت الخلاف في أن الحلي غير النقدين من الحوائج الأصلية، وﷲ تعالى أعلم".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب