کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ کافی سال پہلے رحمت اللہ فوت ہوا،ورثہ میں اس کی بیوی،تین بیٹے(عظمت اللہ،نعمت اللہ اور عنایت اللہ)اور چار بیٹیاں تھیں۔رحمت اللہ نے ترکے میں زمین چھوڑی،جس کو اس کے بیٹوں نے والدہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی زمین صرف اپنے درمیان تقسیم کردی اور بہنوں کو محروم کردیا۔ایک بیٹے عظمت اللہ نے اپنے حصے میں سے کچھ زمین فروخت بھی کردی۔اس کے بعد ایک بیٹی اور دو بیٹے عظمت اللہ اور عنایت اللہ فوت ہوگئے۔ان میں سے عظمت اللہ کا ایک بیٹا ہے،عنایت اللہ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اور مرنے والی بہن کی آگے تین بیٹیاں ہیں،جن میں سے بھی ایک اب فوت ہو چکی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ رحمت اللہ کی بقیہ تین بیٹیوں اور ایک فوت ہونے والی بیٹی کی اولاد نے زمین میں سے اپنے حصہ لینے کا مطالبہ کیا ہےاور زمین اس وقت رحمت اللہ کے بیٹے نعمت اللہ اور دوسرے فوت ہونے والے دو بھائیوں کی اولاد کے قبضے میں ہے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ
(1) اب اس زمین کی تقسیم کیسے ہوگی؟
(2) مردہ بیٹی کی لڑکیوں کو بھی حصہ ملے گا یا نہیں؟
(3) عظمت اللہ نے جو حصہ فروخت کیا تھا اس کو بھی واپس کیا جائے گا یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)صورتِ مسئولہ میں رحمت اللہ کے ترکے میں بیٹوں اور بیٹیوں،دونوں کا حق بنتا ہے،لہذا بہنوں کا اپنے حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے۔
یہ زمین اِس طرح تقسیم ہو گی کہ والدہ کے حصے کے علاوہ زمین کے دس حصے کیے جائیں،جن میں سے ہر بھائی کو دو ،جبکہ ہر بہن کو ایک حصہ دیا جائے گا۔
پھر ان بیٹوں اور بیٹیوں میں سے جو فوت ہوئے ہیں، ان کا حصہ ان کی اولاد کو ملےگا۔
(2) رحمت اللہ کے فوت ہونے کے وقت چونکہ یہ فوت شدہ بیٹی زندہ تھی،اِس لیے اس کو بھی حصہ ملے گا اور اس کی وفات کے بعد وہ حصہ اس کی اولاد کو ملے گا۔
(3) عظمت اللہ نے جو زمین بیچی ہے،وہ اگر اس کے حصے سے کم یا برابر ہے تو ٹھیک ہے اور اگر اس کے حصےسے زیادہ ہے تو اِس صورت میں اس کے حصے سے زائد ٹکڑا دیگر ورثہ کا حق ہے اور ان کو واپس کرنا ضروری ہو گا،البتہ دیگر ورثہ اِس ٹکڑے کے بدلے مناسب رقم لے کر اِس سودے کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
حوالہ جات
قال اللہ تعالی:”للرجال نصيب مما ترك الوالدان والأقربون وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون مما قل منه أو كثر نصيبا مفروضا……يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين،فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك،وإن كانت واحدة فلها النصف……وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا،وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ. [النساء,آیت:,714] “
وفی الدرالمختار: (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)أي: الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة.
قال ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله:أي :الذين ثبت إرثهم بالكتاب) أي:القرآن،وهم الأبوان والزوجان والبنون والبنات والإخوة والأخوات .قوله ) :أو السنة) :أو هنا وفيما بعده مانعة الخلو ،فتصدق باجتماع الثلاثة.(الدر المختار مع رد المحتار) (6/ 761،762)
وفی الدرالمختار:(مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية).(الدر المختار مع رد المحتار) (6/ 801)
قال العلامۃ السجاوندیرحمہ اللہ: وأما لبنات الصلب فأحوال ثلاث:النصف للواحدۃ والثلثان للاثنین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الأنثیین،وھو یعصبھن.(السراجی فی المیراث:8)