021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ڈریم ورلڈمیں نماز جمعہ کا حکم
62044نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

(1) عرض ہے کہ ہم ڈریم ورلڈ میں نماز جمعہ کا اہتمام کرواتے ہیں، اس حوالے سے ایک مسئلے کا حل درکار ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مسجد ہے اس میں پنج وقتہ نماز جماعت سے ادا کی جاتی ہے، لیکن ان نمازوں کے لیے کوئی باضابطہ امام مقرر نہیں ہے، لیکن ہر نماز اپنے وقت پہ جماعت کے ساتھ ادا ہوتی ہے۔ چنانچہ جمعہ کی نماز کا اہتمام بھی ہو چکا ہے، لیکن جمعہ کے لیے بھی کوئی ایک امام مقرر نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کچھ حفاظ کرام موجود ہیں جو جمعہ کی نماز پڑھا سکتے ہیں تو کیا اس مقصد کے لیے کسی ایک امام کا ہونا شرط ہے یا مختلف امام جمعہ پڑھا سکتے ہیں؟ (2) اور کیا جمعہ کی نماز کی امامت کے لیے کوئی خاص شرائط موجود ہیں تو ان کی بھی وضاحت فرمائیے۔ (3) دوسری بات یہ ہے کہ جمعہ کا اہتمام صرف ورکرز اور ممبر حضرات کے لیے ہوتا ہے، جس میں ہم باہر کے لوگوں کو اجازت نہیں دے سکتے، کیا یہ درست ہے جبکہ ڈریم ورلڈ سے باقی مساجد 5-10 منٹ کی مسافت پر واقع ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے رہنمائی فرمائیے۔ تنقیح مستفتی سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ اس احاطے میں تقریبًا 1500 افراد عام حالت میں موجود ہوتے ہیں اور اس احاطے میں جو کوئی موجود ہے، اسے نماز میں شرکت کی اجازت ہے۔ عین نوازش ہوگی۔ انتظامیہ ڈریم ورلڈ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) ایک امام مقرر کرنا بہتر ہے، لیکن اگر کوئی متعین امام نہ ہو تب بھی جمعہ جائز ہے۔ (2) امامت کی شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ خطبہ پڑھ سکتا ہو۔ (3) شہر کے اندر ایسی جگہ جہاں کثیر تعداد میں لوگ رہتے ہوں، لیکن انتظامی، دفاعی یا حفاظتی وجوہات کی بناپر ہر شخص کو آنے کی اجازت نہ ہو، بلکہ وہاں خاص قواعد کے مطابق داخلے کی اجازت ہو اور اندر کے تمام افراد کو نماز میں شریک ہونے کی اجازت ہو، وہاں نمازِ جمعہ ادا کرنا جائز ہے۔ لہذا مذکورہ تفصیل کے مطابق اس احاطے کے اندر نمازِ جمعہ پڑھنا جائز ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: "وكذا السلطان إذا أراد أن يصلي بحشمه في داره فإن فتح بابها وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاته شهدتها العامة أو لا وإن لم يفتح أبواب الدار وأغلق الأبواب وأجلس البوابين ليمنعوا عن الدخول لم تجز لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس وذا لا يحصل إلا بالإذن العام. قلت: وينبغي أن يكون محل النزاع ما إذا كانت لا تقام إلا في محل واحد، أما لو تعددت فلا لأنه لا يتحقق التفويت كما أفاده التعليل تأمل (قوله لم تنعقد) يحمل على ما إذا منع الناس فلا يضر إغلاقه لمنع عدو أو لعادة كما مر." (رد المحتار:2/ 152) قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: " وأما شروط الإمامۃ فقد عدہا فی نور الإیضاح علی حدۃ۔ فقال: وشروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار، کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ وفقد شرط کطہارۃٍ وستر عورۃٍ، احترز بالرجال الأصحاء عن النساء الأصحاء فلا یشترط فی إمامہن الذکورۃ، وعن الصبیان فلا یشترط فی إمامہم البلوغ، وعن غیر الأصحاء فلا یشترط فی إمامہم الصحۃ، لکن یشترط أن یکون حال الإمام أقوی من حال المؤتم أو مساویاً." (رد المحتار۲؍ ۲۴۲،بیروت) قال العلامة الشرنبلالی رحمہ اللہ تعالی: " قلت اطلعت على رسالة العلامة بن الشحنة، وقد قال فيها بعدم صحة الجمعة في قلعة القاهرة، لأنها تقفل وقت صلاة الجمعة، وليست مصرا على حدتها . وأقول في المنع نظر ظاهر، لأن وجه القول بعدم صحة صلاة الإمام بقفله قصره اختصاصه بها دون العامة، والعلة مفقودة في هذه القضية، فإن القلعة وإن قفلت لم يختص الحاكم فيها بالجمعة، لأن عند باب القلعة عدة جوامع في كل منها خطبة لا يفوت من منع من دخول القلعة الجمعة، بل لو بقيت القلعة مفتوحة لا يرغب في طلوعها للجمعة، لوجودها فيما هو أسهل من التكلف بالصعود لها، وفي كل محلة من المصر عدة من الخطب، فلا وجه لمنع صحة الجمعة بالقلعة عند قفلها." (رد المحتار:2/ 269)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب