021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام کے لیے رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت کرنا
62383نماز کا بیانسجدہ تلاوت کا بیان

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام نماز میں آیت سجدہ پڑھے، پھر مقتدیوں کو بتائے بغیر رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلے ۔کیا یہ کام درست ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب امام جہری نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد رکوع کرے اور اس میں سجدہ تلاوت کی بھی نیت کرلے تو راجح قول کے مطابق نماز والا رکوع امام اور مقتدی دونوں کے سجدۂ تلاوت کے لیے کافی ہوجائے گا۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ امام رکوع میں نیت کرنے کے بجائے سجدہ میں نیت کر لے تاکہ بالاتفاق یہ رکوع، سجدۂ تلاوت کے لیے کافی ہو جائے۔ (ماخوذہ از تبویب)
حوالہ جات
ذکر فی الفتاوی التاترخانیۃ: "وإذا قرأ اٰیۃ السجدۃ في صلاتہ وھي في آخر السورۃ، فإن شاء رکع لہا، وان شاء سجد." (الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ۲؍۴۷۷) قال العلامة الحصكفي رحمه اللہ تعالی: "(و) تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر كما في البحر (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالإجماع. ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه، ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة، ولو تركها ]القعدۃ الأخیرۃ[ فسدت صلاته، كذا في القنية وينبغي حمله على الجهرية. نعم لو ركع وسجد لها فورا ناب بلا نية ". قال العلامۃ ابن عابدین شارحا ھذہ العبارۃ المذکورۃ: " قوله: (لو ركع وسجد لها): أي للصلاة فورا ناب أي سجود المقتدي عن سجود التلاوة بلا نية تبعا لسجود إمامه لما مر آنفا أنها تؤدى بسجود الصلاة فورا وإن لم ينو. والظاھر أن المقصود بھذا الاستدراك التنبیہ علی أنہ ینبغی للإمام أن لا ینویھا فی الرکوع؛ لأنہ إذا لم ینوھا فیہ ونواھا فی السجود أو لم ینوھا أصلاً لا شیء علی الموٴتم؛ لأن السجود ھو الأصل فیہا... ھذا وفی القہستانی واختلفوا فی أن نیة الإمام کافیة کما فی الکافی، فلو لم ینو المقتدی لا ینوب علی رأی الخ ... ثم قال بحثاً: والأولیٰ أنہ یحمل علی القول بأن نیة الإمام لا تنوب عن نیة الموٴتم، والمتبادر من کلام القہستانی السابق أنہ خلاف الأصح، حیث قال علی رأی، فتأمل." (الدر المحتار مع رد المحتار:۲؍۱۱۲، ایچ ایم سعید) وقال الإمام الرافعی رحمہ اللہ تعالی: "ھل إعادتہا ]القعدۃ الأخیرۃ[ بعد السلام شرط حتی لا یسوغ تقدیمہا أو ھو لبیان غایۃ تأخیرھا حتی لو قدّمہا صح؛ لأنہ بمنزلۃ اللاحق یراجع إلخ، الظاھر الثاني." (تقریراتِ رافعی ۲؍۱۰۶)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب