021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسلمان کا غیر مسلم کو حرام یا مشکوک اشیاء بیچنے کا حکم
62609 خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

آج کل ہمارے ملک میں غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کام کررہی ہے جو کہ اکثر غیرمسلم ہیں، جیسے سی پیک پر کام کرنے کے لیے بہت سے چین کے لوگ پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بڑے سٹور کے مالکان سے اپنے ملک کی بنی ہوئی ایسی غذائی اشیاء کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کو مرغوب ہیں اور ان کے روزمرہ استعمال کی ہیں۔ یہ غذائی اشیاء کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلاً پکا ہوا ڈبہ بند گوشت، فریز کیا ہوا گوشت، ڈبہ بند پکے ہوئے کھانے جو ان کے طریقے کے مطابق پکائے گئے ہوں، مختلف قسم کی چٹنیاں (Sausages)، نوڈلز، مصالحے اور بسکٹ وغیرہ۔ یہ اشیاء منگواکر ان غیر مسلموں کو بیچنا کیسا ہے؟ جبکہ وہ غذا:- 1. واضح طور پر حرام ہو، مثلاً خنزیر کا گوشت ہو۔ 2. حلال جانور کا گوشت ہو، مثلاً خرگوش، بطخ، گائے وغیرہ، مگر یہ معلوم نہیں کہ یہ شرعی طریقے کے مطابق ذبح کیا گیا ہے یا نہیں۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ غیر مسلموں کے ہاں شرعی ذبیحے کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ 3. گوشت کے علاوہ دیگر غذائی اشیاء، مثلاً ڈبہ بند کھانے اور بسکٹ وغیرہ میں سے ہو، مگر اس کے اندر استعمال ہونے والے اجزاء میں حرام اشیاء شامل ہوں جن کا علم پیکٹ پر دی گئی اجزائے ترکیبی کی فہرست سے ہوجاتا ہے۔ 4. گوشت کے علاوہ دیگر غذائی اشیاء میں سے ہو، مگر اس کے اندر استعمال ہونے والے اجزاء مشکوک ہوں۔ یعنی ایسے ہوں جو حلال اور حرام دونوں ذرائع سے آتے ہوں، اور پیکٹ پر دی گئی تفصیل سے کچھ واضح نہ ہوتا ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ خرید وفروخت کے جائز ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ جو چیز بیچی جائے، شرعاً اس سے نفع اٹھانا جائز ہو۔ لہٰذا مسلمان کے لیے ایسی اشیاء کی تجارت جائز نہیں جن سے نفع اٹھانا شرعاً ناجائز ہو۔ اس اصول کے پیشِ نظر سوال میں ذکر کردہ غذاؤں کی تجارت کا حکم مندرجہ ذیل ہے:- 1. ایسی اشیاء کی خرید وفروخت جائز نہیں۔ 2. ایسے جانوروں کا گوشت بیچنا بھی جائز نہیں۔ 3. ایسی اشیاء کا بیچنا بھی جائز نہیں۔ 4. گوشت اور جن اشیاء میں گوشت شامل ہو، کے علاوہ غذائی اشیاء میں چونکہ اصل حلت ہے، اس لیے اس چوتھی قسم کی اشیاء میں جب تک کسی حرام چیز کے شامل ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو ان کے بیچنے کی گنجائش ہے۔ البتہ چونکہ حرام چیز کے شامل ہونے کا شبہہ موجود ہے، اس لیے احتیاط بہر حال بچنے میں ہی ہے۔
حوالہ جات
صحيح البخاري- طوق النجاة (3/ 53): باب الحلال بين، والحرام بين، وبينهما مشبهات: عن النعمان بن بشير رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم: الحلال بين والحرام بين وبينهما أمور مشتبهة فمن ترك ما شبه عليه من الإثم كان لما استبان أترك ومن اجترأ على ما يشك فيه من الإثم أوشك أن يواقع ما استبان والمعاصي حمى الله من يرتع حول الحمى يوشك أن يواقعه. باب تفسير المشبهات: وقال حسان بن أبي سنان ما رأيت شيئاً أهون من الورع، دع ما يريبك إلى ما لا يريبك. بدائع الصنائع (5/ 143): لا ينعقد بيع الخنزير من المسلم لأنه ليس بمال في حق المسلمين فأما أهل الذمة فلا يمنعون من بيع الخمر والخنزير، أما على قول بعض مشايخنا فلأنه مباح الانتفاع به شرعاً لهم كالخل وكالشاة لنا فكان مالاً في حقهم فيجوز بيعه ، وروي عن سيدنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه كتب إلى عشاره بالشام أن ولوهم بيعها وخذوا العشر من أثمانها ولو لم يجز بيع الخمر منهم لما أمرهم بتوليتهم البيع، وعن بعض مشايخنا حرمة الخمر والخنزير ثابتة على العموم في حق المسلم والكافر لأن الكفار مخاطبون بشرائع هي حرمات هو الصحيح من مذهب أصحابنا فكانت الحرمة ثابتة في حقهم لكنهم لا يمنعون عن بيعها لأنهم لا يعتقدون حرمتها ويتمولونها ونحن أمرنا بتركهم وما يدينون. ولو باع ذمي من ذمي خمرا أو خنزيرا ثم أسلما أو أسلم أحدهما قبل القبض يفسخ البيع لأنه بالإسلام حرم البيع والشراء فيحرم القبض والتسليم أيضا لأنه يشبه الإنشاء أو إنشاء من وجه فيلحق به في باب الحرمات احتياطاً. المجلة (ص: 41): مادة 199 : يلزم أن يكون المبيع مالاً متقوماً. فقہ البیوع (1/303-289 ): الشرط الثانی لجواز البیع أن یکون المبیع متقوماً، وهو شرط لانعقاد البیع، فما لیس متقوماً بحکم العرف أو بحکم الشرع لاینعقد بیعه…….. . فکل ما لا یباح الانتفاع به لیس متقوماً شرعاً، ولا یجوز بیعه، وهو ما کان استعماله متمحضاً فی محظور، فلا یجوز بیع الخمر……… أما المأکولات أو المشروبات التی تشتمل علی الکحول،…. فلو لم یتحقق انقلاب ماهیة الکحول، بل حصل تغیر الأوصاف فقط، فإنه لا یحل علی قول الحنفیة…….وکذلك الخنزیر لایجوز بیعه لکونه لیس بمال متقوم شرعاً، وکذلك بیع أجزاء الخنزیر لایجوز عند الجمهور…… ثم الأحکام التی ذکرناها فی بیع الخمر والخنزیر تنطبق علی ما إذا کان المتبایعان مسلمین، أوکان أحدهما مسلما، أما إذا کانا غیر مسلمین لا یعتقدان حرمتهما فبیعهما فیما بینهم منعقد……… وکذلك المیتة لیست بمال متقوم شرعاً، فلایجوز بیعها، ولا بیع أجزاء تحله الحیاة منها…… والحیوان الذی ذبح أو قتل بغیر ذکاة شرعیة فی حکم المیتة شرعاً، فلا یجوز بیع المنخنقة أو الموقوذة فیما بین المسلمین، وکذلك ما ذبحه غیر أهل الکتاب، ومتروك التسمیة عمداً.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب