کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اِس مسئلے کے بارے میں کہ میرے ماموں جان کا انتقال ہو گیا ہے۔انہوں نے شادی بھی نہیں کی تھی اور ان کے والدین اور سب بہن بھائیوں کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔اب ان کے وارثوں میں چار بھانجیاں،چار بھتیجیاں اور چار بھتیجے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان کی وراثت قرآن و سنت کی روشنی میں کس طرح تقسیم کی جائےگی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچ(اگر کسی نے ذاتی طور پر ادا نہ کیا ہو) اور قرضے کل مال سے ادا کیے جائیں گے۔پھر اگر کوئی وصیت ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی تک پوری کی جائے گی۔اس کے بعد بقیہ مال چاروں بھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگا۔یعنی ہر بھتیجے کو 25% دیا جائےگا۔باقی ورثہ محروم ہوں گے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (يحوز العصبة بنفسه -وهو كل ذكرلم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى-ما أبقت الفرائض):أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) .
(الدر المختار :6/ 773)