021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بول ٹی وی چینل کے ملازم سے بچوں کی ٹیوشن کی فیس لینے کا حکم
63775جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں جامعہ بنات حفصہ رضی اللہ عنہا میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہوں،مدرسے میں دو طالبات جو کہ جماعت اول اور چہارم میں زیر تعلیم ہیں ان کے والد بول چینل میں کام کرتے ہیں،کیمرہ مین ہیں اور ڈرامے بناتے ہیں،ان کی والدہ میری بہن کے فلیٹ میں گھر کے ساتھ رہتی ہے اور وہ مجھے ان بچیوں کو ٹیوشن پڑھانے کا کہہ رہی ہے،میں نے بہن کو میسج کرکے منع کردیا تھا،مگر میری بہن ان کی والدہ کو ہمارے گھر لے آئیں،میں نے چلو آبھی گئی تو بھی منع کردوں گی،مگر وہ اتنی بااخلاق خاتون تھی کہ میں منع نہ کرسکی اور انہوں نے اگلے دن سے بچیوں کو ٹیوشن بھیجنا شروع کردیا دس جولائی سے،ان کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے اور بالکل صاف انکار کردینے سے تو وہ دین اسلام سے متنفر ہوجائیں گی،ان کی فیس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ٹی وی چینل میں ملازمت کے حکم کا دارومدار اصولی طور پر ٹی وی چینل کی آمدن اور ملازم کی بنیادی ذمہ داری پر ہے،اگر ٹی وی چینل کی آمدنی کا اکثر حصہ ایسے ذرائع سے آتا ہو جو جائز اور حلال ہوں تو اس آمدنی سے جائز کام پر تنخواہ لینا جائز ہے،جبکہ بصورت دیگر یعنی اگر چینل کے اکثر ذرائع آمدن ناجائز ہو یا ملازم کے ذمے جو کام لگایا گیا ہو وہ ناجائز ہو تو تنخواہ ناجائز ہوگی۔ چونکہ اس شخص کی ذمہ داری تصویریں اور ڈرامے بنانے کی ہے اور آج کل ٹی وی چینلوں پر عموما نامحرم عورتوں اور فحاشی و عریانی پر مشتمل تصاویر اور ڈرامےبنائےاور دکھائے جاتے ہیں،اس لیے اس شخص کی آمدن سے فیس لینا جائز نہیں۔
حوالہ جات
"رد المحتار" (2/ 292): "وفي حاشية الحموي عن الذخيرة: سئل الفقيه أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمراء السلطان وجمع المال من أخذ الغرامات المحرمات وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال: أحب إلي أن لا يأكل منه ويسعه حكما أن يأكله إن كان ذلك الطعام لم يكن في يد المطعم غصبا أو رشوة اهـ أي إن لم يكن عين الغصب أو الرشوة؛ لأنه لم يملكه فهو نفس الحرام فلا يحل له ولا لغيره". "الفتاوى الهندية" (5/ 342): " لو أن فقيرا يأخذ جائزة السلطان مع علمه أن السلطان يأخذها غصبا أيحل له؟ قال إن خلط ذلك بدراهم أخرى، فإنه لا بأس به، وإن دفع عين المغصوب من غير خلط لم يجز قال الفقيه - رحمه الله تعالى - هذا الجواب خرج على قياس قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لأن من أصله أن الدراهم المغصوبة من أناس متى خلط البعض بالبعض، فقد ملكها الغاصب ووجب عليه مثل ما غصب وقالا لا يملك تلك الدراهم وهي على ملك صاحبها فلا يحل له الأخذ، كذا في الحاوي للفتاوى. وفي فتاوى أهل سمرقند رجل دخل على السلطان فقدم عليه بشيء مأكول، فإن اشتراه بالثمن أو لم يشتر ذلك ولكن هذا الرجل لا يفهم أنه مغصوب بعينه حل له أكله، هكذا ذكر والصحيح أنه ينظر إلى مال السلطان ويبني الحكم عليه، هكذا في الذخيرة". "المبسوط للسرخسي" (10/ 197): (وحجتنا) في ذلك أن الحكم للغالب وإذا كان الغالب هو الحرام كان الكل حراما في وجوب الاجتناب عنها في حالة الاختيار، وهذا لأنه لو تناول شيئا منها إنما يتناول بغالب الرأي، وجواز العمل بغالب الرأي للضرورة ولا ضرورة في حالة الاختيار، بخلاف ما إذا كان الغالب الحلال فإن حل التناول هناك ليس بغالب الرأي".
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب