ایک رفاہی ادارہ جولوگوں کوقرض فراہم کرتاہےجوممبرقرض کی ادئیگی کے لیے ہر ماہ آتے ہیں تو ساتھ حسب تو فیق چندہ بھی دیتے ہیں جو چندہ نہ دے تو ادارے والے کہتے ہیں کہ آپ چندہ کیوں نہیں دیتے حسب توفیق ہر قسط کے ساتھ چندہ دیا کرے،کیا اس طریقے سے چندہ مانگنا صحیح ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر ادارہ قرض دیتے وقت چندہ کی شرط نہ لگا ئیں اور نہ اس ادارے کی پالیسی میں یہ بات شامل ہو کہ قرضہ صرف ان افراد کو دیا جائے گا جو کمپنی کو قرض کی قسط کے ساتھ چندہ بھی دے بلکہ قرض دینے کے بعد ترغیباً قرض خواہوں کوادارے کے ساتھ تعاون پر امادہ کرتا ہو تب تو ان کا چندہ لینا درست ہے،لیکن اگرادارہ قرض دیتے وقت یہ شرط لگائے کہ آپ نے قرض کی رقم دیتے وقت حسب توفیق چندہ دینا ہے یا یہ ادارہ کی پالیسی ہو کہ قرضہ صرف ان افراد کو دیا جائے گا جو کمپنی کو قرض کی قسط کے ساتھ چندہ بھی دے تب تو ان کا چندہ لینا درست نہیں ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 395)
(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي - عليه السلام -: «خيار الناس أحسنهم قضاء» .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه