021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نوکری کے لیے رشوت دینا
62640جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

ایک بندے نے ایک نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا۔اسے نوکری کے لیے بلایا بھی گیا اور حق بھی ان کا بنتا ہے۔بعد میں پتا چلا کہ ایک اور بندہ اس نوکری کو رشوت دے کر لے رہا ہے۔اب پہلا بندہ کہ رہا ہے کہ میں اس نوکری کا اہل بھی ہوں اور دوسرا اہل نہیں،میرا حق بھی ہے اور ان کا حق بھی نہیں،اگر مجھے نوکری ملی تو میں ہر لحاظ سے سرکار کو،ادارے کو نقصان سے بچاونگا۔اور بعد میں اپنے ماتحت لوگوں کو بھی میرٹ پر لونگا یعنی رشوت کے خلاف مہم چلاونگا،ٹائم کا خاص خیال رکھونگا،جبکہ دوسرا رشوت دے کر ناحق چیز لے رہا ہے تو بعد میں وہ ادرے کا کیا خیال رکھے گا۔اب یہ پوچھنا ہے کہ کیا میں رشوت دے کر اپنا حق لے سکتا ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی شخص واقعی اہل ہو اور رشوت کےعلاوہ اپنے حق کی وصولی کا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو اس کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے جبکہ لینے والے کے لیے بہر صورت حرام ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362) ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط وحيلة حلها أن يستأجره يوما إلى الليل أو يومين فتصير منافعه مملوكة ثم يستعمله في الذهاب إلى السلطان للأمر الفلاني، حاشية رد المحتار (5/ 191) وفيه أن جواز إقدام المشتري على الشراء للضرورة لا يفيد صحة البيع، كما لو اضطر إلى دفع الرشوة لاحياء حقه جاز له الدفع وحرم على القابض، واللہ سبحانہ و تعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب