کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ:
آج کل مچھروں کو مارنے کے لیے بجلی کے آلات استعمال ہوتے ہیں۔مچھر ان سے ٹکراتاہے تو کرنٹ سے مر جاتاہے۔ حدیث میں آگ کا عذاب دینے سے منع کیا گیا ہے۔ کیا یہ اس میں داخل ہوگا۔
بعض اوقات ان آلات کے استعمال کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں، ان مچھر مار بجلی کے آلات کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بجلی کے کرنٹ سے جب کسی جاندار کو ہلاک کیا جاتاہے توبعض مرتبہ صرف اس جاندار کی ہلاکت واقع ہوتی ہےجبکہ بعض اوقات جاندار کی ہلاکت اور اس کا جلنا بیک وقت وقوع پذیر ہوتاہے، اس کا دارومدار بجلی کےکرنٹ اور وولٹیج،جاندار کے جسم سے گزرنے والی مقدار اور جاندار کی قوت برداشت پر ہے۔اگر جاندار کی قوتِ برداشت کم اور وولٹیج زیادہ ہوں تو ہلاکت کے ساتھ ساتھ جاندار جل بھن بھی جاتاہے۔
آج کل کیڑے مکوڑے مارنے کے لیے بجلی کے جو آلات استعمال کیے جاتے ہیں، ان کے استعمال کا جائز یا ناجائز ہونا، اس بات پر موقوف ہے کہ کوئی خاص آلہ، جاندار کو کرنٹ سے صرف ہلاک کرتاہےیا ہلاکت کے ساتھ ساتھ جلاتا بھی ہے۔جو برقی آلات،صرف ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، ان کا استعمال جائز ہے اور جو برقی آلات، جلا بھی دیتے ہیں، ان کا استعمال ناجائز ہے۔
البتہ عام حالات میں زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان تمام آلات کے استعمال سے گریز کیا جائے کیونکہ ان کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ کے دوسرے طریقے (اسپرے، لوشن، کوائلزوغیرہ) موجود ہیں،جن کے استعمال میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ ،کیڑے مکوڑوں کے ضرر سے بچنے کے لیے، برقی آلات کےاستعمال کے بغیرکوئی چارہ نہ ہوتوپھر ایسی صورت میں برقی آلات کا استعمال جائز ہے، خواہ برقی آلات صرف ہلاک کرتے ہوں یا ساتھ میں جلا بھی دیتے ہوں۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (4 / 49):
عن أبي هريرة رضي الله عنه، أنه قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعث وقال لنا: «إن لقيتم فلانا وفلانا - لرجلين من قريش سماهما - فحرقوهما بالنار» قال: ثم أتيناه نودعه حين أردنا الخروج، فقال: «إني كنت أمرتكم أن تحرقوا فلانا وفلانا بالنار، وإن النار لا يعذب بها إلا الله، فإن أخذتموهما فاقتلوهما»
فتح الباري لابن حجر (6 / 150):
واختلف السلف في التحريق فكره ذلك عمر وبن عباس وغيرهما مطلقا سواء كان ذلك بسبب كفر أو في حال مقاتلة أو كان قصاصا وأجازه علي وخالد بن الوليد وغيرهما وسيأتي ما يتعلق بالقصاص قريبا وقال المهلب ليس هذا النهي على التحريم بل على سبيل التواضع ويدل على جواز التحريق فعل الصحابة وقد سمل النبي صلى الله عليه وسلم أعين العرنيين بالحديد المحمي وقد حرق أبو بكر البغاة بالنار بحضرة الصحابة وحرق خالد بن الوليد بالنار ناسا من أهل الردة وأكثر علماء المدينة يجيزون تحريق الحصون والمراكب على أهلها قاله الثوري والأوزاعي وقال بن المنير وغيره لا حجة فيما ذكر للجواز لأن قصة العرنيين كانت قصاصا أو منسوخة كما تقدم وتجويز الصحابي معارض بمنع صحابي آخر وقصة الحصون والمراكب مقيدة بالضرورةالى ذلك إذا تعين طريقا للظفر بالعدو ۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14 / 220):
قوله: (وإن النار لا يعذب بها إلا الله)۔۔۔ وقال المهلب: ليس نهيه عن التحريق بالنار على معنى التحريم، وإنما هو على سبيل التواضع لله تعالى، والدليل على أنه ليس بحرام سمل أعين الرعاة بالنار في مصلى المدينة بحضرة الصحابة، وتحريق الخوارج بالنار، وأكثر علماء المدينة يجيزون تحريق الحصون على أهلها بالنار، وقول أكثرهم بتحريق المراكب،۔۔۔وقيل: حديث الباب يرد هذا كله، لأن ظاهر النهي فيه التحريم، وهو نسخ لأمره المتقدم۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2672):
ويمكن أن يكون الإحراق منسوخا، أو محمولا على ما لا يمكن قتله إلا به ضرورة۔
الفتاوى الهندية (5 / 361):
إحراق القمل والعقرب بالنار مكروه۔