آج کل موٹر سائیکل قسطوں پر فروخت کی جاتی ہے۔ اور اس کی قیمت نقد کے مقابلہ میں زیادہ رکھی جاتی ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟کیا یہ سود ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
موٹر سائیکل کو قسطوں میں فروخت کرنے کی صورت میں، نقد کی بنسبت زیادہ قیمت رکھنا جائز ہے،یہ سود نہیں۔ کیونکہ سود وہ اضافہ ہوتا ہے، جس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہ ہو جبکہ یہاں پوری رقم (اصل قیمت اور اضافہ جو ادھار کی وجہ سے ہے،دونوں) کو موٹر سائیکل کا عوض بنایا گیا ہے۔لہذا یہ اضافہ سود نہیں کہلائے گا۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 224):
ولو اشترى شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتى يبين؛ لأن للأجل شبهة المبيع وإن لم يكن مبيعا حقيقة؛ لأنه مرغوب فيه ألا ترى أن الثمن قد يزاد لمكان الأجل فكان له شبهة أن يقابله شيء من الثمن فيصير كأنه اشترى شيئين ثم باع أحدهما مرابحة على ثمن الكل؛ لأن الشبهة ملحقة بالحقيقة في هذا الباب فيجب التحرز عنها بالبيان.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 168):
باب الربا هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة۔۔۔ (خال عن عوض)۔۔۔ (بمعيار شرعي)۔۔۔ (مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين)۔۔۔۔ (في المعاوضة)۔