ایک مدرسہ میں ایک وقف کی گاڑی ہے، مدرسہ کے مہتمم کو کبھی کبھی گاڑی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ گاڑی کو ذاتی استعمال میں لےآتےہیں تو کیا ضرورت کی وجہ سے مدرسہ کی گاڑی کو ذاتی استعمال میں لانا جائز ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مہتمم صاحب عرف کےمطابق تنخواہ،کھانااورسواری وغیرہ سہولیات کو اپنے لیے طے کر سکتے ہیں۔ اس طرح باقاعدہ طے کرنے کے بعد وہ طے شدہ سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔طے کیے بغیر جب اور جتنا چاہا وقف کے مال کو اپنی ذات کے لیے استعمال کر لینا جائز نہیں۔اسی طرح معمول سے بہت بڑھا کر تنخواہ اور مراعات لینا بھی درست نہیں۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7 / 168):
وفي منية المفتي أقسام المتصرفين تصرف الأب والجد والوصي ومتولي الوقف لا يجوز إلا بمعروف أو بغبن يسير۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 435):
ليس للقاضي أن يقرر وظيفة في الوقف بغير شرط الواقف، ولا يحل للمقرر الأخذ إلا النظر على الواقف بأجر مثله قنية
(قوله: بأجر مثله) وعبر بعضهم بالعشر والصواب أن المراد من العشر أجر المثل حتى لو زاد على أجر مثله رد الزائد كما هو مقرر معلوم، ويؤيده أن صاحب الولوالجية بعد أن قال: جعل القاضي للقيم عشر غلة الوقف فهو أجر مثله، ثم رأيت في إجابة السائل، ومعنى قول القاضي للقيم عشر غلة الوقف أي التي هي أجر مثله لا ما توهمه أرباب الأغراض الفاسدة إلخ بيري على الأشباه من القضاء.
قلت: وهذا فيمن لم يشرط له الواقف شيئا وأما الناظر بشرط الواقف فله ما عينه له الواقف: ولو أكثر من أجر المثل۔