021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکاۃ میں تاخیر کاحکم
62338زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

زید کے پاس بقدر نصاب مال تجارت ہے، اِس ماہ اس کا سال پورا ہوکر زکاۃ واجب ہوئی، لیکن اس کے پاس فی الحال نقد رقم نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ اگلے مہینے زکاۃ نکالوں گا۔ تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کیا زکوۃ میں تاخیر کی جاسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکاۃ واجب ہونے کے بعد فوراً ادائیگی لازم ہے، تاخیر کی بالکل گنجائش نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے فی الحال نقد رقم پاس نہیں ہے ،یا مستحقین زکوٰۃ موجودنہیں ہیں تو پھر نقد رقم کے حاصل کرنے اورمستحقین زکوٰۃ تک رسائی پانے میں جتنا وقت درکار ہو اس حد تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔اس سے زیادہ مزید تاخیر پر گناہ ہوگا۔ چونکہ فی الحال نقد پیسے کا نہ ہونا ایک عذر ہے، لہذا مذکورہ صورت میں تاخیر کی گنجائش ہے۔البتہ جیسے ہی نقد رقم آجائے تو زید پر زکوٰۃ کی ادائیگی فوراً لازم ہوگی اور تاخیر کی صورت میں گناہ ہوگا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 271): (وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (1 / 713): فرضت في السنة الثانية من الهجرة كالصوم قبل فرضه وهي واجبة على الفور وعليه الفتوى فيأثم بتأخيرها بلا عذر العناية شرح الهداية (2 / 155): وقوله (ثم قيل هي واجبة على الفور) وهو قول الكرخي، فإنه قال: يأثم بتأخير الزكاة بعد التمكن. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 271): (وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (قوله فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب