کیا فرماتے ہیں علماءکرام کہ موجودہ دور میں گھر میں ٹی وی رکھنے کا کیا حکم ہے؟نیز اس پر کرکٹ میچ دیکھنا یا خبریں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ٹیلی ویژن اپنی ذات کی حد تک معلومات فراہم کرنےکاایک آلہ اورذریعہ ہےجس کاجائزاورناجائز دونوں طرح کااستعمال ممکن ہے،لہٰذاٹی وی کومحض ایک آلہ ہونےکی حیثیت سےشرعاً ناجائزنہیں کہا جائیگابلکہ اس کاجائزاستعمال جائزاور ناجائز استعمال ناجائز ہوگا۔
لیکن اس وقت یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ موجودہ حالات میں ٹی ویژن کاغالب استعمال ناجائز مقاصد میں ہورہا ہے،اگرچہ اس کاکچھ جائزاورمفیداستعمال بھی موجودہےجہاں اس کومفاسد اورمنکرات کےبغیراستعمال کیا جاسکتاہے، تاہم چونکہ اس وقت عام ٹی وی کاغالب اورزیادہ تراستعمال بےحیائی اورگناہ کےکاموں میں ہورہاہےاس لئےسداً للذرائع(یعنی اس خطرےکےپیش نظرکہ یہ مباح اورجائزچیزکسی ناجائزاورحرام کام کاذریعہ نہ بن جائے) موجودہ حالات میں ٹی وی گھرپر رکھنایا ناجائز پروگرام دیکھنا جائز نہیں۔
البتہ کرکٹ کامیچ ٹی وی میں براہِ راست دیکھنااگرفی نفسہ جائزبھی ہوتب بھی اسمیں درج ذیل متعددمفاسد پائےجاتےہیں اس لئے اس سےاجتناب کرناضروری ہے۔
۱ ۔ ٹی وی میں کرکٹ میچ کے دوران وقفہ وقفہ سے وہ اشتہارات اور پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں جو خود متعدد منکرات ومحرمات اور فواحشات پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ میوزک اور موسیقی بھی ہوتی ہے جنکو دیکھنے اور سننے سے پرہیز کرنا لازم ہے ۔
۲۔کرکٹ میچ دیکھنےاور سننے والوں کااس میں عموماً اس قدر انہماک ہوتاہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنے فرائض ِمنصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کاارتکاب کرتے ہیں ۔
۴۔ اس کی وجہ سے ضروری کا م متاثر ہونے کااندیشہ ہوتاہے ۔
۵۔ اس میں نماز ضائع ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔
نیزٹیلی ویژن پرخبریں چونکہ آج کل اکثرخواتین سناتی ہیں جونامحرم ہوتی ہیں ،لہذا بہتریہ ہےکہ ٹی وی پرخبریں نہ سنی جائیں،کیونکہ خبریں ریڈیوکےذریعےبھی سنی جاسکتی ہیں۔
حوالہ جات
صحيح البخاري - (ج 19 / ص 353)
باب كل لهو باطل إذا شغله عن طاعة الله ومن قال لصاحبه تعال أقامرك وقوله تعالى{ ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله }
فتح الباري - ابن حجر - (ج 11 / ص 91)
إذا شغله أي شغل اللاهي به عن طاعة الله أي كمن النهي بشيء من الأشياء مطلقاسواء كان مأذونا في فعله أو منهيا عنه كمن اشتغل بصلاة نافلة أو بتلاوة أو ذكر أو تفكر في معاني القرآن مثلا حتى خرج وقت الصلاة المفروضة عمدا فإنه يدخل تحت هذا الضابط وإذا كان هذا في الأشياء المرغب فيها المطلوب فعلها فكيف حال ما دونها ۔۔۔
سنن الترمذى - (ج 8 / ص 294)
عن أبي سلمة عن أبي هريرة قالقال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه