021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نا بالغ کے قتل کرنے کا حکم
62799قصاص اور دیت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

سوال: 25 دسمبر 2012 کو دو فریقوں کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے اور نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے (زید کی عمر 20 سال بکر کی عمر 17 سال ) تفصیلا :ایک لڑکے "زید" کی دوسرے لڑکے" بکر "سے لڑائی جھگڑے کی صورت میں نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے اور زید کو موقع پر قتل کردیا جاتا ہے، کچھ دنوں کے بعد 8 جنوری کو ملزم کو پکڑا جاتا ہے اور جیل میں ڈال دیا جاتا ہے،عدالت بکر کو 7جون 2013 کو پھانسی کی سزا سنا دیتی ہے، عدالتی معاملات کے ساتھ ساتھ مقتول کے ورثا سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے اور تمام معاملات خوش اسلوبی سے دیت اور معافی فی سبیل اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ پھر ذیلی عدالت ہائی کورٹ انکی دیت اور راضی نامہ کو دیکھتے ہوئے معاملات کو رفع دفع کردیتی ہے، لیکن ملک کی بالائی عدالت (Supreme Court)کےچیف جسٹس سوشل میڈیا کے شور شرابہ میں شریعت کو پس پشت ڈال کر دیت کو نہ مانتے ہوئے بکر کو پھر سے گرفتار کرنے کا حکم دیتی ہے اور راضی نامہ کوکالعدم قرار دیتی ہے۔(بکر 5 سال ڈیرماہ سے جیل میں قید ہے۔) سوالات : • اسلام میں نابالغ قاتل کی کیا سزا ہو تی ہے؟(کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ) • اگر دیت اور معافی کا معاملہ دونوں فریقوں کے درمیان خوش اسلوبی سے طے پاچکا ہو، تو کیا پھر بھی سزا ہوسکتی ہے ؟ • اگر آئین پاکستان میں اسلام کو مملکتی مذہب قرار دیا گیا ہے، تو پھر اسلامی دفعات سے روگردانی کرکے اپنے قوانین (جو کہ انسانی عقل وسمجھ سے بنائے گئے ہوں )کو اللہ کی دی گئی شریعت سے کیسے مقابل کیا جا سکتا ہے ؟ • اگر مملکتی دفعات اور شریعت کے فیصلے آمنے سامنے آجائے تو کس کو زیادہ فوقیت دینی ہوگی؟ برائے کرم مندرجہ بالا حالات ،پس منظر اور سوالات کا شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ یہ کسی کی زندگی اور شعائر اسلام کا معاملہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تمہید 1. شرعیت کی رو سے بلوغت کی عمر 15 سال ہے، لہذا" بکر" مذکورہ صورتحال میں نابالغ شمارنہ ہوگا ۔ 2. قانون کی رو سے فوجداری قوانین میں یہ مفروضہ بالخصوص "قصاص آرڈینس "میں متعین ہےکہ قاتل اسٹیٹ کا مجرم کہلاتا ہے اور مدعی اس دعوی میں اسٹیٹ ہوتی ہے اور مقتول کے ورثاء بطور گواہ پیش ہوتے ہیں۔ کورٹ ورثاء کے مطالبہ پر قصاص یا دیت کے فیصلے کے بعد اسٹیٹ کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر تعزیری سزا کے اجرا کا حق رکھتی ہے ۔شرعی نقطہ نظر سے عدالت ایک مرتبہ مجرم قرار دینے کے بعد قصاص یا دیت کی حد تک کوئی مداخلت نہیں کرسکتی ، البتہ معافی کی ترغیب دے سکتی ہےاور ورثاء کی معافی کے بعد تعزیری سزا کا اجراء کرسکتی ہے اور تعزیر میں اگر قصاص ورثاء نے معاف کردیا ہو تو سزائے موت سے کم تر کوئی بھی سزا دے سکتی ہے۔(عدالتی فیصلے جلد1 صفحہ283) 3. ان قوانین کے شرعی تصادم کی صورت میں ہر شہری کو وفاقی شرعی عدالت میں ایسے متصادم قانون کو چیلنچ کرنے کا حق حاصل ہے تاکہ مذکورہ ادارہ ایسے قانون کو کالعدم قرار دے کر شرعی دستور سازی کو یقینی بنائے۔ 4. ملک کی ذیلی عدالتیں ایڈورسرئیل(Adversarial) نظام پر قائم ہوتی ہیں جہاں مکمل انحصار استغاثہ پر ہوتا ہے جبکہ اعلی عدالتیں انکوسٹیریل (Inquisitorial)نظام کے تحت چلائی جاتی ہے جہاں پر جج کو سوالات قائم کرنے اور استغاثہ کے قائم کردہ الزامات کے علاوہ دیگر دفعات بھی شامل کرنے کا اختیارہوتا ہے۔ مثلا ہائی کورٹ میں اگر استغاثہ قتل کے مقدمے میں محاربہ /دہشت گردی وغیرہ کی دفعات شامل نہیں کرتا، تو عدالت بھی ان دفعات کو شامل کرنے کا حق نہیں رکھتی ،بلکہ جج کو صرف موجودہ شواہد کی حد تک محدود رہ کر فیصلہ کرنا ہوگا ،بر خلاف سپریم کورٹ کے کہ وہ اگر محسوس کرے کہ کسی بات کو چھپایا جا رہا ہے تو وہ خود آگے بڑھ کر اس کی تفتیش اور اسکو مقدمہ میں شامل کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تمہید مذکور کے بعد نمبر وار جوابات درج ذیل ہیں: • اسلام میں نابالغ کو قتل کی سزا میں قصاصا قتل نہیں کیا جا سکتا بلکہ مقتول کی دیت اسکے عاقلہ(خاندان ) پر لازم ہوگی ،البتہ مذکوہ پس منظر میں قاتل نابالغ نہیں۔ • جی ہاں! سزا ہوسکتی ہے۔دیت کے طے ہوجانے یا ورثاء کے معاف کردینے کے بعد بھی ریاست نظم و ضبط اور قانون شکنی کے جرم میں تعزیری سزا دے سکتی ہے ،سوائے سزائے موت کے۔ • انسانی قوانین کو شرعیت کے مقابل ہرگز نہیں کیا جا سکتا اور آئین پاکستان میں ریاست کو ایک اسلامی مملکت قرار دینے کی وجہ سے ہی وفاقی شرعی عدالت کا قیام یقینی بنایا گیا اور اس بات کا بھی التزام کیا گیا کہ دستور سازی میں کوئی بات خلاف شرع نہ آئے،اس لیے خلاف شرع قوانین کو مقابل قرار دینا درست نہیں ۔ • تصادم کی صورت میں ظاہر ہےکہ فوقیت شرعی قوانین ہی کو حاصل ہوگی اور اسی کام کیلئے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہےکہ تصادم کی صورت میں وہ قوانین کو شرعی دائرہ کار میں لیکر آئیں۔
حوالہ جات
البناية شرح الهداية (11/ 109) (فإن لم يوجد ذلك) ش: أي واحد من الأشياء المذكورة م: (فحتى يتم له ثماني عشرة سنة) ش: بفتح العددين للتركيب وحذف التاء من ثمانية وإثباتها في عشرة وتكسر الشين في عشرة وقد تسكن، وكذلك الغلام في سبع عشرة.(وبلوغ الجارية بالحيض والاحتلام والحبل، وإن لم يوجد ذلك فحتى يتم لها سبع عشرة سنة۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 96) قال - رحمه الله - (والجارية بالحيض، والاحتلام، والحبل وإلا فحتى يتم لها سبع عشرة سنة) أما الحيض فلأنه يكون في أوان الحبل عادة فجعل ذلك علامة البلوغ وأما الحبل فلأنه دليل على الإنزال؛ لأن الولد يخلق من ماء الرجل، والمرأة غير أن النساء نشؤهن وإدراكهن أسرع فزدنا سنة في حق الغلام لاشتمالها على الفصول الأربع التي منها ما يوافق المزاج لا محالة فيقوى فيه قال - رحمه الله - (ويفتى بالبلوغ فيهما بخمسة عشر سنة) عند أبي يوسف ومحمد وهذا ظاهر لا يحتاج إلى الشرح قال - رحمه الله - (وأدنى المدة في حقه اثنتا عشرة سنة وفي حقها تسع سنين) يعني لو ادعيا البلوغ في هذه المدة تقبل منهما ولا تقبل فيما دون ذلك؛ لأن الظاهر تكذيبه قال في العناية ثم قيل إنما يعتبر قوله بالبلوغ إذا بلغ اثنتي عشرة سنة فأكثر وقد أشار إليه بقوله أدنى المدة وهذه المدة مذكورة في النهاية وغيرها ولا يعرف إلا سماعا أو بالتتبع مجلة الأحكام العدلية (ص: 190) (مادة 986) مبدأ سن البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنة وفي المرأة تسع سنوات ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنة. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنة ولم يبلغ يقال له " المراهق " وإذا أكملت المرأة تسعا ولم تبلغ يقال لها " المراهقة " إلى أن يبلغا. الأصل المعروف بالمبسوط للشيباني (4/ 550) وإذا جنى الصبي جناية عمدا أو خطأ فهو سواء عمد الصبي وخطأه سواء وكذلك المعتوه وأرش ذلك على العاقلة إذا بلغ خمسمائة درهم فصاعدا بلغنا ذلك عن على رضي الله عنه أن رجلا معتوها سعى على رجل بالسيف فضربه فجعله على عاقلته وقال خطأه وعمده سواء وإذا أمر الصبي الصبي فقتل إنسانا فانما الدية على عاقلة القاتل وليس على الآمر شيء من قبل أن كلامه لا يجوز على نفسه ولو أن رجلا أمر صبيا فقتل إنسانا كانت دية المقتول على عاقلة الصبي ويرجع بذلك عاقلة الصبي على عاقلة الآمر من قبل أن قول الرجل الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 532) (يجب القود) أي القصاص (بشرط كون القاتل مكلفا) لما تقرر أنه ليس لصبي ومجنون عمد. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 534) (والفرع بأصله وإن علا لا بعكسه) خلافا لمالك فيما إذا ذبح ابنه ذبحا أي لا يقتص الأصول وإن علوا مطلقا ولو إناثا من قبل الأم في نفس أو أطراف بفروعهم وإن سفلوا لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يقاد الوالدبولده» وهو وصف معلل بالجزئية فيتعدى لمن علا؛ لأنهم أسباب في إحيائه فلا يكون سببا لإفنائهم، وحينئذ فتجب الدية في مال الأب في ثلاث سنين؛ لأن هذا عمد والعاقلة لا تعقل العمد. تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 208) وليس فيه شيء مقدر وإنما هو مفوض إلى رأي الإمام على ما تقتضي جنايتهم فإن العقوبة فيه تختلف باختلاف الجناية فينبغي أن تبلغ غاية التعزير في الكبيرة المبسوط للسرخسي (9/ 82) لا يبعد الجمع بين الحد والتعزير بسبب فعل واحد كالزاني في نهار رمضان يعزر لتعمد الإفطار ويحد للزنا، وكما لو كان المولى مكاتبا يعزر مملوكه على الزنا، ثم يرفعه إلى الإمام ليقيم عليه الحد رد المحتار (15/ 7) ويحبسه هنا حتى يسأل عن الشهود بطريق التعزير ، بخلاف الديون فإنه لا يحبس فيها قبل ظهور العدالة ، وتمامه في البحر .واعترضه بأنه يلزم الجمع بين الحد والتعزير .قلت : وفيه نظر ؛ لأنه بهذه الشهادة صار متهما ، والمتهم يعزر والحد لم يثبت بعد ، على أنه لا مانع من اجتماعهما بدليل ما يأتي من أنه لا يجمع بين جلد ونفي إلا سياسة وتعزيرا فتدبر تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 209) قال - رحمه الله - (وأكثر التعزير تسعة وثلاثون سوطا) وفي رواية عن أبي يوسف يبلغ بالتعزير خمسة وسبعون سوطا وفي رواية تسعة وسبعون وفي رواية عنه أنه يقرب كل جنس إلى جنسه فيقرب للمس والقبلة من حد الزنا والقذف لغير المحصن أو للمحصن بغير الزنا من حد القذف صرفا لكل نوع وعنه أنه يعتبر على قدر عظم الجرم وصغره وقول محمد فيه مضطرب فإنه ذكر في بعض النسخ مع أبي حنيفة وفي بعضها مع أبي يوسف والأصل فيه قوله - عليه الصلاة والسلام - «من بلغ حدافي غير حد فهو من المعتدين» فيعزر من غير تبليغه حدا بالإجماع غير أن أبا حنيفة اعتبر أدنى الحدود وهو حد العبد لأن مطلق ما روينا يتناوله وأقله أربعون وأبو يوسف اعتبر حد الأحرار ¬بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (9/ 292) بمعصية فلا تجوز طاعتهم اياه فيها لقوله عليه الصلاة والسلام لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق ولو أمرهم بشئ لا يدرون أينتفعون به أم لا فينبغي لهم أن يطيعوه فيه إذا لم يعلموا كونه معصية لان اتباع الامام في محل الاجتهاد واجب كاتباع القضاة في مواضع الاجتهاد والله تعالى عز شأنه أعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب