021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قادیانی عورت کا حق پرورش
65074نان نفقہ کے مسائلوالدین،اوراولاد کے نفقہ اور سکنی کے احکام

سوال

زید کی شادی زینب سے ایک سال قبل طے ہوئی اور اسوقت بندہ کو قادیانی عقائد اور رسومات کا علم نہیں تھا شادی کے بعد محلہ کے امام اور دیگر حضرات نے سمجھایا اور کہا کہ یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا،البتہ ان سب کے دوران ایک لڑکا پیدا ہوا۔اب ہمارے درمیان علیحدگی ہو گئی ہے اور میں اپنے بیٹے کی پرورش خود کرنا چاھتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں کا کہنا ہیکہ وہ لڑکا اسکے پاس رہے گا تو وہ بھی قادیانی ہوجاےگا ۔اور کچھ لوگون نے یہ بھی بتایا کہ کافر کو مسلمان بچہ کی پرورش کا کوئی حق نہیں ،اب معاملات دونوں طرف سے گرم ہیں اور معاملہ عدالت میں حل ہونے کی ہی امید ہے ،لہذا اس صورتحال کے پیش نظر شریعت کا کیا حکم ہے؟کیا اسکی ماں کو پرورش کا حق حاصل ہے؟اگر ہے تو کب تک ؟ شرعی رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید یہ واضح رہے کہ جب تک بچہ دین کے بارے سمجھ بوجھ نہیں رکھ لیتا اس وقت تک اسکی پرورش کا حق اسکی ماں کو حاصل ہوتا ہےاگر چہ ماں کافر ہی کیوں نہ ہو ، اس وجہ سے کہ حقِ پرورش حاصل ہونے کا مدار شفقت پر ہے اور ماں کی شفقت اپنے بچے سے دین کے اختلاف کی وجہ سے ختم نہیں ہوتی۔نیزاس عرصہ میں بچّے کا نفقہ مسلمان باپ کے ذمّے ہوتا ہے۔ البتہ جب بچہ دین کے بارے سمجھ بوجھ رکھنا شروع کر دے تو اس وقت چونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بچہ ماں کے پاس رہ کر قادیانیو ں کے کفریہ عقائد اختیار کر لے، جس میں بچے کا بہت بڑا نقصان ہے لہذا اس وقت ماں کا حقِ پرورش ساقط ہو جائے گا، اور پرورش کا حق مسلمان باپ کو حاصل ہو گا ۔ لہذامذکورہ صورت میں مسلمان شوہر کو عدالت سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ قادیانی عورت کو پرورش کا حق اس وقت تک حاصل ہو جب تک بچہ دین کی سمجھ بوجھ نہیں رکھ لیتا جب وہ اس عمر کو پہنچ جائے تو اس وقت شریعت کے مطابق قادیانی ماں کا حقِ پرورش ساقط قرار دے کر شوہر کو یہ حق دے کہ وہ بچّے کو اپنے زیرِتربیت لےلے، اور اسکے خلاف کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے،اور اس پر عدالت سے باقاعدہ سند وصول کر لینی چاہئے تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (۳ / ۵۵۶) (قوله: النسبية) احترز به عن الأم الرضاعية فلا تثبت لها. اهـ. ح. وكذا الأخت رضاعا ونحوها. (قوله: ولو كتابية، أو مجوسية) لأن الشفقة لا تختلف باختلاف الدين. بدائع الصنائع - (۴ / ۴۲) وأهل الذمة في هذه الحضانة بمنزلة أهل الإسلام لأن هذا الحق إنما يثبت نظرا للصغير وأنه لا يختلف بالإسلام والكفر وكذا اتحاد الدين ليس بشرط لثبوت هذا الحق حتى لو كانت الحاضنة كتابية والولد مسلم كانت في الحضانة كالمسلمة كذا ذكر في الأصل لما قلنا وكان أبو بكر أحمد بن علي الرازي يقول إنها أحق بالصغير والصغيرة حتى يعقلا فإذا عقلا سقط حقها لأنها تعودهما أخلاق الكفرة وفيه ضرر عليهما والله عز وجل الموفق البحر الرائق - (۴ / ۱۸۵) ( والذمية أحق بولدها المسلم ما لم يعقل الأديان ) لأن الحضانة تبتني على الشفقة وهي أشفق عليه فيكون الدفع إليها أنظر له فإذا عقل الأديان ينزع منها لاحتمال الضرر ، وأطلق الذمية فشمل الكتابية والمجوسية كما في غاية البيان وغيره ، وقيد بها للاحتراز عن المرتدة لأنه لا حق لها فيها لأنها تحبس وتضرب فلا تتفرغ له ولا في دفعه إليها نظر فإذا أسلمت وتابت يسلم الولد إليها وقد جمع في الهداية بين شيئين فقال ما لم يعقل الأديان أو يخاف يخف أن يألف الكفر فظاهره أنه إذا خيف أن يألف الكفر نزع منها وإن لم يعقل دينا الدر المختار - (3 / 631) (ولا نفقة) بواجبة (مع الاختلاف دينا إلا للزوجة والأصول والفروع) علوا أو سفلوا (الذميين) لا الحربيين ولو مستأمنين لانقطاع الإرث حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 631) (قوله إلا للزوجة إلخ) لأن نفقة الزوجة جزاء الاحتباس وهو لا يتعلق باتخاذ الملة ونفقة الأصول والفروع للجزئية وجزء المرء في معنى نفسه فكما لا تمتنع نفقة نفسه بكفره لا تمتنع نفقة جزئه، إلا أنهم إذا كانوا حربيين لا تجب نفقتهم على المسلم وإن كانوا مستأمنين؛ لأننا نهينا عن البر في حق من يقاتلنا في الدين كما في الهداية
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد کامران

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب