021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کی زکوۃ(کاروبار کی زکوۃ کیسے نکالی جائے؟کاروباری شریک کی طرف سے زکوۃ کس کے ذمہ ہے؟)
64714زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

ہمارا موجودہ کاروبار شراکت کی بنیاد پر ہے، اولاً تو یہ معلوم کرنا ہیکہ کاروبار کی زکاۃ کیسے نکالی جائے گی ، دوسرا یہ کہ میرے ذمہ صرف اپنے حصہ کی زکاۃ ہے یا میرے شراکت داروں کی بھی ؟ یعنی اگر میرا شریک اپنے حصہ کی زکاۃ نہ نکالے تو آیا انکی زکاۃ کی ادائیگی میرے ذمہ تو نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح ہو کہ کاروبار کی زکاۃ کیلئے کمپنی میں جو اموال نقدکیش یا سونا ،چاندی یا مالِ تجارت کی صورت میں موجود ہیں ان اموال پر زکوۃ واجب ہے۔اس کے علاوہ جو سامان کمپنی میں صرف استعمال کے لئے ہے تجارت کے لئے نہیں ہے مثلاً مشینیں، فرنیچر،استعمال کی گاڑی وغیرہ ان پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔ لہذا جس تاریخ میں آپ کی زکٰوۃ کا نصابی سال چاند کے حساب سے پورا ہو تا ہے اس تاریخ میں حساب لگا کر متعین کریں کہ کاروبار میں کل سرمایہ و مالِ تجارت اور نفع نیز قابل ِ وصول قرضوں کی مالیت کتنی ہے اس کا مجموعہ نکالنے کے بعد دیکھیں اگر کوئی قرض مثلاًبجلی کے بل ،ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ کمپنی کے ذمہ واجب الادا ہو تو اس کو اس مجموعہ سے منہا کرلیں ،اس کے بعد جو مالیت بنتی ہو اتنی مالیت کی زکوٰۃ ہر شریک کیلئے اپنےاپنے حصہ کے بقدر انکے ذمہ واجب ہے۔ اب زکاۃ کے حساب کے بعد پہلے تو آپ اپنے شریکِ کاروبار کو بھی اس بات پر رضا مند کریں کہ وہ بھی اپنی حصہ کی زکٰوۃ ادا کرے لیکن باوجود کوشش کے اگر وہ ادا نہ کریں تو اس کا گناہ انہیں (شریک)پر ہےآپ اپنے حصہ کی زکٰوۃ ادا کر کے برئ الذمہ ہو جائیں گے ۔یعنی جتنی مالیت آپ کی بنتی ہواتنی مالیت کی زکٰوۃ ادا کرنا آپ کے ذمّے واجب ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (1 / 181) فَإِنْ كان نَصِيبُ كل وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَبْلُغُ نِصَابًا وَجَبَتْ الزَّكَاةُ وَإِلَّا فَلَا سَوَاءٌ كانت شَرِكَتُهُمَا عِنَانًا أو مُفَاوَضَةً أو شَرِكَةُ مِلْكٍ بِالْإِرْثِ أو غَيْرِهِ من أَسْبَابِ الْمِلْكِ وَسَوَاءٌ كانت في مَرْعًى وَاحِدٍ أو في مَرَاعٍ مُخْتَلِفَةٍ فَإِنْ كان نَصِيبُ أَحَدِهِمَا يَبْلُغُ نِصَابًا وَنَصِيبُ الْآخَرِ لَا يَبْلُغُ نِصَابًا وَجَبَتْ الزَّكَاةُ على الذي يَبْلُغُ نُصِيبُهُ نِصَابًا دُونَ الْآخَرِ وَإِنْ كان أَحَدُهُمَا مِمَّنْ تَجِبُ عليه الزَّكَاةُ دُونَ الْآخَرِ فَإِنَّهَا تَجِبُ على من تَجِبُ عليه إذَا بَلَغَ نَصِيبُهُ نِصَابًا مصلیاً الفتاوى الهندية - (1 / 179) الْفَصْلُ الثَّانِي في الْعُرُوضِ الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ في عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً ما كانت إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا من الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا في الْهِدَايَةِ وَيُقَوَّمُ بِالْمَضْرُوبَةِ كَذَا في التَّبْيِينِ وَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ عِنْدَ حَوَلَانِ الْحَوْلِ بَعْدَ أَنْ تَكُونَ قِيمَتُهَا في ابْتِدَاءِ الْحَوْلِ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ من الدَّرَاهِمِ الْغَالِبِ عليها الْفِضَّةُ كَذَا في الْمُضْمَرَاتِ ثُمَّ في تَقْوِيمِ عُرُوضِ التِّجَارَةِ التَّخْيِيرُ يَقُومُ بِأَيِّهِمَا شَاءَ من الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ إلَّا إذَا كانت لَا تَبْلُغُ بِأَحَدِهِمَا نِصَابًا فَحِينَئِذٍ تَعَيَّنَ التَّقْوِيمُ بِمَا يَبْلُغُ نِصَابًا كَذَا في الْبَحْرِ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 263) (فَلَا زَكَاةَ عَلَى مُكَاتَبٍ) لِعَدَمِ الْمِلْكِ التَّامِّ، وَلَا فِي كَسْبِ مَأْذُونٍ، وَلَا فِي مَرْهُونٍ بَعْدَ قَبْضِهِ، وَلَا فِيمَا اشْتَرَاهُ لِتِجَارَةٍ قَبْلَ قَبْضِهِ (وَمَدْيُونٍ لِلْعَبْدِ بِقَدْرِ دَيْنِهِ) فَيُزَكِّي الزَّائِدُ إنْ بَلَغَ نِصَابًا، وَعُرُوضُ الدِّينِ كَالْهَلَاكِ عِنْدَ مُحَمَّدٍ، الدر المختار - (4 / 328) (وَلَمْ يُزَكِّ أَحَدُهُمَا مَالَ الْآخَرِ بِغَيْرِ إذْنِهِ، فَإِنْ أَذِنَ كُلٌّ وَأَدَّيَا مَعًا) أَوْ جَهِلَ (ضَمِنَ كُلٌّ نَصِيبَ صَاحِبِهِ) وَتَقَاصَّا أَوْ رُجِعَ بِالزِّيَادَةِ (وَإِنْ أَدَّيَا مُتَعَاقِبًا كَانَ الضَّمَانُ عَلَى الثَّانِي، عَلِمَ بِأَدَاءِ صَاحِبِهِ أَوْ لَا كَالْمَأْمُورِ بِأَدَاءِ الزَّكَاةِ) أَوْ الْكَفَّارَةِ (إذَا دَفَعَ لِلْفَقِيرِ بَعْدَ أَدَاءِ الْآمِرِ بِنَفْسِهِ) لِأَنَّ فِعْلَ الْآمِرِ عَزْلٌ حُكْمِيٌّ؛ وَفِيهِ: لَا يُشْتَرَطُ الْعِلْمُ خِلَافًا لَهُمَا حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (4 / 328) (قَوْلُهُ: وَلَمْ يُزَكِّ أَحَدُهُمَا إلَخْ) ؛ لِأَنَّ الْإِذْنَ بَيْنَهُمَا فِي التِّجَارَةِ وَالزَّكَاةُ لَيْسَتْ مِنْهَا وَلِأَنَّ أَدَاءَ الزَّكَاةِ مِنْ شَرْطِهِ النِّيَّةُ، وَعِنْدَ عَدَمِ الْإِذْنِ لَا نِيَّةَ لَهُ فَلَا تَسْقُطُ عَنْهُ لِعَدَمِهَا ط عَنْ الْحَمَوِيِّ (قَوْلُهُ: وَأَدَّيَا مَعًا) أَيْ أَدَّى كُلٌّ مِنْهُمَا عَنْ نَفْسِهِ وَعَنْ شَرِيكِهِ
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب