68552 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
زید نےایک شخص کوزکوۃ اوردوسری نفلی صدقات کی رقم دی کہ آپ اسےکسی مستحق کودےدیں۔اس شخص نےوہ رقم اپنے کاروبارمیں لگاکرنفع کمایا۔اس کاروباراورمنافع کا شرعاکیاحکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ بالاصورت میں یہ شخص زید کاوکیل ہے اوروکیل کےلیےموکل کی زکوۃ اورنفلی صدقات کواپنی ضرورت کےلیے موکل کی اجازت کےبغیراستعمال کرناجائزنہیں ہے۔اس صورت میں اگراس شخص نےمال زکوۃ کو اپنے کام میں موکل کی اجازت کےبغیراستعمال کیا ہے،تواس نےگناہ کاارتکاب کیا ہے،اس پرلازم ہےکہ توبہ واستغفارکرےاور یہ رقم فوراکاروبارسےنکال لے،اس کےساتھ اس پریہ بھی لازم ہےکہ زیدسےدوبارہ اجازت لےکریہ رقم بطورزکوۃ مستحقین کودینےکااہتمام کرے،دوبارہ مؤکل سےاجازت لیےبغیراگراپنی رقم سےزکوۃ اداکی،توراجح روایت کےمطابق مؤکل کی زکوۃ ادانہ ہوگی۔
رہے وہ منافع جواس مال سےاس نےکمائےہیں،توان کاشرعی حکم یہ ہےکہ ان کوصدقہ کرنالازم ہے۔البتہ اس کی وجہ سے باقی کاروبارپرکوئی اثرنہیں پڑےگا۔
حوالہ جات
العناية شرح الهداية (9/ 330) (ومن غصب ألفا فاشترى بها جارية فباعها بألفين ثم اشترى بالألفين جارية فباعها بثلاثة آلاف درهم فإنه يتصدق بجميع الربح، وهذا عندهما) وأصله أن الغاصب أو المودع إذا تصرف في المغصوب أو الوديعة وربح لا يطيب له الربح عندهما، الفتاوى الهندية (5/ 15) وأما شرط أدائها فنية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب هكذا في الكنز فإذا نوى أن يؤدي الزكاة ، ولم يعزل شيئا فجعل يتصدق شيئا فشيئا إلى آخر السنة ، ولم تحضره النية لم يجز عن الزكاة كذا في التبيين
..واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | متخصص | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |