021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نمازِ جمعہ کے صحیح ہونے کیلئے دیگر شرائط کے ساتھ اذنِ عام بھی شرط ہے
69562نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

اگر کوئی حاکم تشدد کرےاور کسی حال میں بھی جمعہ ادا کرنے کیلئے اجازت نہ دیتا ہو تو اپنی طرف سے کسی کو قتل وقتال کی اجازت نہیں ہے ۔ گھر پر تا خیر(1)کے ساتھ انفرادی (2)طور پر ظہرکی نماز ادا کریں کیونکہ گھروں (3)میں جمعہ کی نماز ادا نہیں ہوتی ہے ، اس لئے کہ نماز جمعہ کے لئے دیگر شرائط کے ساتھ اذنِ عام بھی شرط ہے(4)۔ (ہر ایک کووہاں پر جانے کی اجازت ہو) ۔ جبکہ گھروں میں وہ مفقود ہے۔ (1)۔۔۔قال فی البزازیہ:ویستحب للمریض والمسافر واھل السجن تاخیرالظہر الی فراغ الامام من الجمعۃ وان لم یؤخرہ یکرہ فی الصحیح[1]۔ (2)۔۔۔الف:۔۔۔ قال فی البزازیہ :واھل المصر اذا فاتتھم الجمعۃ صلوا فرادیٰ کالمسافرین۔ [2] (ب):۔۔۔ ویکرہ ان یصلی المعذورون الظھر بجماعۃ یوم الجمعۃ فی المصر۔[3] (ج):۔۔۔ (وکرہ) تحریماً (لمعذور ومسجون) ومسافر(اداء ظھر بجماعۃ فی مصر) قبل الجمعۃ وبعدھا …(وکذا اھل المصر فاتتھم الجمعۃ) فانھم یصلون الظھر بغیر اذان ولا اقامۃ ولا جماعۃ۔[4] (د):۔۔۔ ویکرہ للمعذورین والمسجونین اداء الظھر بجماعۃ فی المصر یوم الجمعۃ سواء کان قبل الفراغ من الجمعۃ او بعدہ، لان الجمعۃ جامعۃ للجماعات۔ [5] (3)۔۔۔ وقال الوھبۃ الزحیلی: …ولا (تجوز الجمعۃ ) فی الاماکن المحجورۃ کالدور والحوانیت۔[6] (4)(الف):۔۔۔ وقال التمرتاشی رحمہ اللہ: السابع: (الاذن العام) ۔[7] (ب):۔۔۔ قال العلامۃ عاصم بن العلاء الانصاری رحمہ اللہ: والشرط السادس: الاذن العام ،وھو ان تفتح ابواب الجامع فیؤذن بالناس کافۃ ، حتی ان جماعۃ لو اجتمعوا فی الجامع واغلقوا ابواب المسجد علی انفسھم وجمعوا لم یجزھم ، وکذلک السلطان اذا اراد ان یجمع بحشم فی دارہ، فان فتح باب الدار فاذن اذنا عاماجازت صلاتہ شھدھا العامۃ، او لم یشھدوھا،وان لم یفتح باب الدار واغلق الابواب واجلس البوابین علیھا لیمنعوا عن الدخول لم یجزھم الجمعۃ ۔[8] (ج):۔۔۔ وھکذا فی المحیط: والشرط السادس: الاذن العام، وھو ان یفتح ابواب الجامع ویؤذن للناس کافۃ، حتی ان جماعۃ لواجتمعوا فی الجامع ، واغلقوا ابواب المسجد علی انفسھم ، وجمعوا لم یجزھم،وکذلک السلطان اذا اراد ان یجمع بحشمہ فی دارہ ،فان فتح باب الدار واذن للناس اذنا عامًّا جازت صلاتہ، شھد العامَّۃ او لم یشھدوھا ، وان لم یفتح باب الدار واغلق الابواب،واجلس البوابین علیھا لیمنعوا عن الدخول لم تجزھم الجمعۃ ، لان اشتراط السلطان للتحرز عن تفویتھا علی الناس، ولا یحصل ذلک الا باذن العام۔ [9] (د):۔۔۔ قال الملک العلماء الکاسانی رحمہ اللہ تعالیٰ: ان امیرالو جمع جیشہ فی الحصن واغلق الابواب وصلی بھم الجمعۃ لاتجزئھم۔کذا ذکر فی النوادر ۔فانہ قال : السلطان اذا صلی فی فھندرۃ والقوم مع امراء السلطان فی المسجد الجامع ،قال ان فتح باب دارہ واذن للعامۃ بالدخول فی فھندرۃ جاز وتکون الصلاۃفی موضعین، ولولم یأذن للعامۃ وصلی مع جیشہ لاتجوز صلاۃ السلطان وتجوز صلاۃ العامۃ، وانما کان ھذا شرطا لان اللہ تعالیٰ شرع النداء لصلاۃ الجمعۃ بقولہ ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ“ والنداء للاشتھار ، ولذایسمی جمعۃ لاجتماع الجماعات فیھا فاقتضی ان تکون الجماعات کلھا مأذونین بالحضور اذناً تاماً۔تحقیق لمعنی الاسم، واللہ اعلم۔ [10] (ذ):۔۔۔ وفی البنایۃ: شرائط لزوم الجمعۃ اثنی عشر ،ستۃ فی نفس المصلی ،وھی الحریۃ والذکورۃ والاقامۃ والصحۃ وسلامۃ الرجلین والبصر وقال یجب علی الاعمیٰ اذا وجد قائداً، وستۃ فی غیر نفس المصلی وھی المصرالجامع والسلطان والجماعۃ والخطبۃ والوقت والاظھار، حتی ان الوالی لو اَتٰی علی بابالمصر وجمع فیہ بحشمہ ولم یأذن للناس فیہ بالدخول لم یجز کذاذکرہ التمرتاشی رحمہ اللہ، وذکر محمد فی نوادرالصلاۃ ان الامیر لو جمع جنودہ فی الحصن واغلق الابواب وصلیٰ بھم الجمعۃ فانہ لایجزئھم۔[11] (ر):۔۔۔وقال الامام الحافظ المجتھد محمد بن الحسن الشیبانی ،باب فی صلاۃ الجمعۃ، لھا شرائط،۔۔۔ والسادسۃ الاداء علی سبیل الاشتھار شرط، حتی لو اغلق الامیر ابواب الحصن وصلیٰ بالناس وعسکرہ لا یجوز۔[12] (ز)۔۔۔وقال الوھبۃ الزحیلی: والثانی الاذن العام، وھو ان تفتح الابواب الجامع للناس بالدخول اذنا عاما، بان لا یمنع احد ممن تصح منہ الجمعۃ عن الدخول الموضع الذی تصلی فیہ، لان کل تجمع یتطلب الاذن بالحضور، ولانہ لا یحصل معنی الاجتماع الا بالاذن ، ولانھا من شعائر الاسلام، وخصائص الدین، فلزم اقامتھا علی سبیل الاشتھار والعموم۔[13] (س):۔ ۔۔ شہیدِ اسلام علامہ محمد یوسف لدھیانویؒ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ، کہ جہاں جمعہ پڑھایا جاتا ہے ،اگر وہاں ہر ایک کو جانے کی اجازت نہیں تو جمعہ نہیں ہوگا۔[14] مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں جس مسجد کے دروازے پر کوئی آدمی کھڑا ہو اور لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہ دیتا ہو تو اس مسجد میں حالتِ مذکور ہ کے دوران جمعہ کی نماز درست ہونے میں کافی تردد ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جمعہ کے صحیح ہونے کیلئے اذن عام شرط ہے یانہیں؟ حنفیہ کے نزدیک شرط ہے،جبکہ جمہورکے نزدیک یہ شرط نہیں۔یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اورمجتہدفیہ مسئلہ میں حاکم کافیصلہ اختلاف کوختم کردیتاہے،اس اصول اورضابطہ کی روشنی میں موجودہ حالات(لاك ڈاون) میں مسجدمیں مخصوص لوگوں کوجمعہ پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی ،ہرایک کومسجدمیں آنے کی اجازت نہیں تھی ،اگرچہ اس صورت میں اذن عام کی شرط موجود نہیں،لیکن چونکہ یہ فیصلہ حاکم وقت کاایک متعدی مرض کی روک تھام كی پیش نظرتھا،اورحاکم کافیصلہ مجتہدفیہ میں رافع للخلاف ہوتاہے،اس لئے اذن عام کے موجودنہ ہونے کے باوجودمسجدمیں جمعہ صحیح ہے۔البتہ گھروں میں نہ تواذن عام کاتحقق ہے اورنہ ہی حکمِ حاکم ہے،لہذا گھرمیں جمعہ کی بجائےظہر کی نمازپڑھی جائے گی اوراس میں بھی بہتریہ ہے کہ انفرادی طورپرپڑھی جائے۔
حوالہ جات
فی الفقه الإسلامي وأدلته (ج 2 / ص 436): كون الأمير أو نائبه هو الإمام، والإذن العام من الإمام بفتح أبواب الجامع للواردين عليه. اشترط الحنفية هذين الشرطين: الأول ـ أن يكون السلطان ولو متغلباً أو نائبه، أو من يأذن له بإقامة الجمعة كوزارة الأوقاف الآن هو إمام الجمعة وخطيبها؛ لأنها تقام بجمع عظيم، وقد تقع منازعة في شؤون الجمعة، فلا بد منه تتميماً لأمره، ومنعاً من تقدم أحد. والثاني ـ الإذن العام: وهو أن تفتح أبواب الجامع ويؤذن للناس بالدخول إذناً عاماً، بأن لا يمنع أحد ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه؛ لأن كل تجمع يتطلب الإذن بالحضور، ولأنه لا يحصل معنى الاجتماع إلا بالإذن، ولأنها من شعائر الإسلام، وخصائص الدين، فلزم إقامتها على سبيل الاشتهار والعموم. ولم يشترط غير الحنفية هذين الشرطين، فلا يشترط إذن الإمام لصحة الجمعة، ولا حضوره؛ لأن علياً صلى بالناس، وعثمان محصور، فلم ينكره أحد، وصوبه عثمان (1) ، ولأن الجمعة فرض الوقت، فأشبهت الظهر في عدم هذين الشرطين۔ وفی رد المحتار (ج 21 / ص 431): وأما الأمير فمتى صادف فصلا مجتهدا فيه نفذ أمره كما قدمناه عن سير التتارخانية وغيرها فليحفظ . وفی العناية شرح الهداية - (ج 10 / ص 276) الأصل أن القضاء متى لاقى فصلا مجتهدا فيه ينفذه ولا يرده غيره۔ فی رد المحتار (ج 6 / ص 105): ( وكره ) تحريما ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع۔۔۔۔۔ ( قوله وكذا أهل مصر إلخ ) الظاهر أن الكراهة هنا تنزيهية لعدم التقليل والمعارضة المذكورين ويؤيده ما في القهستاني عن المضمرات يصلون وحدانا استحبابا ( قوله بغير أذان ولا إقامة ) قال في الولوالجية ولا يصلي يوم الجمعة جماعة بمصر ولا يؤذن ولا يقيم في سجن وغيره لصلاة الظهر “ وفی الفتاوى الهندية (ج 4 / ص 288): ”ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة والمسافرون إذا حضروا يوم الجمعة في مصر يصلون فرادى وكذلك أهل المصر إذا فاتتهم الجمعة وأهل السجن والمرض ويكره لهم الجماعة “
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب