70152 | طلاق کے احکام | الفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان |
سوال
چھ سات ماہ قبل کی بات ہے میری بیوی نے کسی معاملے پر شور مچانا شروع کردیا جیسا کہ اس کی عادت ہے ،حالانکہ دو سال سے ہمارا آپس میں بائیکاٹ چل رہا تھا اور ہم ایک دوسرے سے بات تک نہیں کرتے تھے ،جب یہ میرے ساتھ بھڑ گئی تو مجھے بھی بہت غصہ آیا،لیکن اتنے میں میرے والدصاحب گھر آگئے اور ان کو سمجھانے لگے،لہذا دونوں نے آپس میں شور شروع کردیا،میں چونکہ بیوی سے بولتا نہیں تھا،لہذا آگے بڑھ کر میں نے والد صاحب سے کہا کہ ’’انہیں چھوڑ دیں میں نے ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کردیا ہے‘‘ ، یہ سن کر والد صاحب ہکا بھکا رہ گئے اور تین چار مرتبہ استغفر اللہ استغفر اللہ وغیرہ کہا ، ظاہر سی بات ہے کہ والد صاحب کو اس بات کا شک ہوگیا کہ اس قسم کے جملے سے تو طلاق واقع ہوسکتی ہے،والد صاحب حیران کھڑے مجھے دیکھے جارہے تھے ،لہذا والد صاحب کے شک و شبہ کو دور کرنے کے لئے میں نےدوبارہ اچھی طرح مضبوط لہجے میں صاف صاف طلاق ہی کی نیت سے کہہ دیا کہ میں نے ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کردیا ہے بس، واضح رہے کہ ہر قسم کے تعلق میں ازدواجی تعلق بھی شامل تھا اور ویسے بھی ہمارا آپس میں دوسال سے بائیکاٹ چل رہا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد بھی چار پانچ ماہ تک ہم نے آپس میں کوئی بات نہیں کی ،پھر ایک دن میرے بھائی محمد عمر کی کوشش کے نتیجے میں میری بیگم نے مجھ سے ڈھائی سال کے بعد بات چیت شروع کی ،اب ہم آپس میں بات تو کرتے ہیں لیکن میری رہائش مستقل طور پر بیٹھک میں ہے اور وہ اپنے کمرے میں ہوتی ہے ،مذکورہ واقعہ بالکل میرے ذہن سے نکل گیا تھا ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ جملے کہنے سے طلا ق واقع ہوجائے گی یا نہیں ؟ اگر طلاق ہوتی ہے تو کیا ایک طلاق واقع ہوتی ہے یا دو ؟ اور اگر خدانخواستہ یہ طلاق واقع ہوتی ہے تو رجعی ہوگی یا بائن،جبکہ درمیان میں پانچ چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بھی گزر چکا ہوگا؟
اور اب ساتھ رہنے کا کیا حکم ہے؟اور ساتھ رہنے کی کیا صورت ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ ٍصورت میں ان الفاظ"میں نے ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کردیا ہے" کے ذریعے ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے،اب ساتھ رہنے کے لیےباہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح ضروری ہو گا اور اس کے بعد آپ کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(1/ 375):
"ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى".
"الفتاوى البزازية" (2/ 46):
"ولو قال لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع وكذا في أبعدي ونوى".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
11/صفر1442ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |