03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایہ پر لی گئی دکان کسی اور کو زیادہ کرایہ پر دینا
70273اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ایک بندے نے 25000 روپے کرایہ پر ایک دکان لی اور پھر یہ دکان آگے ایک دوسرے شخص کو 32000 یا 50000 کرایہ پر دی،جبکہ دکان کے مالک کو اس کا علم بھی ہے،کیا کرایہ پر لی ہوئی جگہ کو اس طرح آگے کرایہ پر دینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جس شخص نے 25000 کے عوض دکان کرایہ پر لی ہے اگر اس نے دکان میں کوئی  اضافی تعمیر،ڈیکوریشن وغیرہ کا کام کروایا ہے تو پھر وہ یہ دکان کسی اور کو زیادہ کرایہ پر دے سکتا ہے اور اگر کوئی کام نہیں کروایا تو پھر 25000 سے زیادہ کرایہ پر دینا جائز نہیں۔

حوالہ جات

"بدائع الصنائع "(4/ 206):

" وللمستأجر في إجارة الدار وغيرها من العقار أن ينتفع بها كيف شاء بالسكنى، ووضع المتاع، وأن يسكن بنفسه، وبغيره، وأن يسكن غيره بالإجارة، والإعارة.

إلا أنه ليس له أن يجعل فيها حدادا، ولا قصارا، ونحو ذلك مما يوهن البناء لما بينا فيما تقدم، ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

26/صفر1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب