021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسے پلاٹ کا حکم جس کی کچھ قسطیں والد نے ادا کی ہوں اور کچھ بیٹے نے
70490میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے والد صاحب کا انتقال 1981ء میں ہوا،ورثہ میں ایک بیوہ جن کا انتقال 2016ء میں ہوا،دیگر ورثہ الحمد للہ حیات ہیں،جن میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔

والد نے انتقال سے پہلے ایک پلاٹ کی ممبر شپ لی تھی جو اسکیم 33 میں واقع تھا،چند اقساط جو تقریبا اڑتالیس ہزار کی بنتی تھی ادا کرنے کے بعد والد صاحب کا انتقال ہوگیا،تقریبا ایک سال کے اندر یہ پلاٹ جو والد صاحب کے نام پر تھا میرے نام کردیا گیا اور اس کی بقایا تمام اقساط میرے نام کے ساتھ ادا ہوتی رہی،2005ء میں اس پلاٹ کو ایک ضرورت کے تحت میں نے فروخت کردیا اور اس پلاٹ کی رقم چھوٹے بھائی کے کاروبار میں شامل کرادی،ابو کے انتقال سے لے کر چھوٹے بھائی کو رقم لگانے تک اس پلاٹ کی شرعی حیثیت سے ناواقف تھا،اب اس پلاٹ کی شرعی حیٕثیت کے بارے میں معلوم کرنا ہے۔

1۔کیا یہ پلاٹ تمام وارثوں کا تھا؟

2۔1981ءمیں 4800 کی قیمت والد صاحب نے ادا کی تھی،کیا یہ رقم تقسیم ہوگی؟

3۔2005ء میں اس پلاٹ کو فروخت کیا گیا،کیا یہ رقم ورثہ میں تقسیم ہوگی؟

4۔2005ءکے بعد چھوٹے بھائی کے ساتھ کاروبار میں شامل کرادی اور ہم آج بھی اپنا کاروبار کررہے ہیں،کیا موجودہ حیثیت میں 2020ء میں جو موجود ہے،کیا یہ سب ورثہ میں تقسیم ہوگا؟

تنقیح:

پلاٹ کی بقیہ اقساط سائل نے اپنی ذاتی کمائی سے ادا کی تھیں اور پلاٹ بیچنے کے بعد اس کی رقم جس کاروبار میں لگائی گئی ہے وہ صرف سائل اور اس کے چھوٹے بھائی نے ذاتی سرمایہ لگاکر شروع کیا  ہے،دیگر ورثہ اس میں شریک نہیں ہیں۔

اسی طرح پلاٹ کا قبضہ والد کے انتقال کے بعد قسطیں پوری ہونے کے بعد دیا گیا تھا،والد صاحب کو صرف اس اسکیم میں ممبر شپ دی گئی تھی،والد کے انتقال کے بعد اس بیٹے نے بقیہ اقساط بھر کر یہ پلاٹ اپنے لیے خریدا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،2۔ چونکہ  والد صاحب کی وفات کے بعد آپ نے مزید قسطیں جمع کراکر یہ پلاٹ ذاتی طور پر اپنے لیے خریدا تھا،اس لیے یہ آپ ہی کی ملکیت تھا،البتہ وہ رقم (4800)جو مرحوم والد نے جمع کرائی تھی ان کے انتقال کے بعد وہ تمام ورثہ کی مشترکہ ملکیت میں آگئی تھی،اس لیے آپ کے ذمے لازم ہے کہ اس میں سے آپ کا جتنا حصہ بنتا ہے اس کے علاوہ بقیہ رقم ورثہ کو دے دیں۔ 

3،4۔چونکہ پلاٹ آپ کی ملکیت تھا،اس لیے اسے بیچنے کے نتیجے میں جو رقم حاصل ہوئی وہ بھی آپ کی ملکیت تھی،لہذایہ رقم ورثہ میں تقسیم نہیں ہوگی اور  اس رقم سے کاروبار کے حجم میں جو اضافہ ہوا ہے،اس میں بھی دیگر ورثہ کا حق نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ جواب اس مفروضے پر مبنی ہے کہ آپ نے یہ پلاٹ صرف اپنے لیے خریدا ہو،سب ورثہ کی مشترکہ ملکیت کی نیت سے نہ خریدا ہو۔

حوالہ جات
"مجلة الأحكام العدلية" (ص: 204):
"شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث أو بخلط".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 16):
" كون الشيء، ولم يقل كون العين لأنه كما يفهم من المادة (1066) أن  شركة الملك كما تكون في العين تكون في الدين أيضا، وقد استعمل في بعض الكتب الفقهية تعبير العين إلا أن هذا الاستعمال هو؛ لأن شركة العين غالبة أو أكثر أو لأن العين المقصودة هناك معممة على العين حالا والعين مالا".
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 67):
"المادة (3 1 1) - (إذا لم يقبض أحد الشريكين في الدين المشترك شيئا من الدين المشترك لكنه اشترى متاعا من المدين بدلا عن حصته فلا يكون الدائن الآخر شريكا في ذلك المتاع لكن له أن يضمنه حصته من ثمن ذلك المتاع وإذا اتفقا على الاشتراك يكون المتاع المذكور مشتركا بينهما) إذا لم يقبض أحد الشريكين في الدين المشترك مقدارا قليلا أو كثيرا من الدين المشترك لكنه اشترى متاعا من المدين بدلا عن حصته فلا يكون الدائن الآخر شريكا في ذلك المتاع للدائن المشتري لأن الشريك المشتري قد أصبح مالكا لذلك المال بعقد البيع وليس بسبب الدين لأن عقد البيع مثبت للملكية بنفسه ومستغن عن وجود الدين السابق".
"شرح المجلة لخالد الاتاسی" (4/ 38):
احدالشریکین فی الدین المشترک اذا اشتری بحصتہ متاعا من المدیون ولم یقبض منہ شیئا فلایکون الدائن الآخر شریکا فی ذٰلک المتاع،لکن لہ ان یضمنہ حصتہ من ثمن ذٰلک المتاع وان اتفقا علی کون المتاع مشترکا کان بینھما کذلک".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

18/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب