021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجدِ محلہ میں اختلاف اور ایک مسجد کی اشیاء وغیرہ نئی مسجد منتقل کرنا
70297وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنی شخصی زمین میں سے ایک حصہ مسجد کے لیے وقف کیا، اس پر مسجد بنائی گئی۔ اس کے بعد کسی مسئلہ پر اہلِ محلہ کا اختلاف ہوا جس کی وجہ سے اس شخص نے اپنی وقف کردہ زمین جس پر مسجد بنائی گئی تھی، سے رجوع کیا اور کہا کہ میں نے یہ مسجد اللہ کے لیے وقف کی تھی، لیکن پھر میں نے واپس لے لی اور محلہ والوں سے کہا کہ آج کے بعد اس مسجد میں کسی کو بھی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں باقی اہلِ محلہ نے ایک اور مسجد اس کے متصل بنائی اور اس میں نماز پڑھنی شروع کی۔ اب دونوں مسجدوں میں نمازیں ہوتی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ پہلی مسجد کا کیا حکم ہے؟ آیا اس کو اپنی جگہ پر باقی رکھا جائے؟ اس میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس اختلاف کی وجہ سے محلہ والوں نے پہلی مسجد سے قالین، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ زبردستی سے دوسری مسجد میں منتقل کی ہیں، اسی طرح پہلی مسجد کی چھت کی قیمت لگاکر اہلِ محلہ نے اپنے حساب کے پیسے لے کر دوسری مسجد کی بنیادوں میں خرچ کردی ہیں۔ اس سامان اور پیسوں کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جھگڑے کی بنیاد پر نئی مسجد تعمیر کرنا ٹھیک نہیں ہے، لیکن جب کوئی جگہ ایک مرتبہ وقف اور مسجد بن جائے تو پھر اس سے رجوع نہیں ہوسکتا، وہ تا قیامت مسجد ہی رہتی ہے۔ اس لیے مذکورہ شخص اب اس پہلی مسجد اور اس کی جگہ کو اپنی شخصی ملکیت میں نہیں لے سکتا، یہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی، اور اس میں نمازیں ادا کرنا ٹھیک ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اہلِ محلہ کے لیے پہلی مسجد سے زبردستی سامان لینا اور اس کی چھت میں لگائی ہوئی رقم وصول کرنا بھی جائز نہیں تھا۔ اب ان کے ذمے لازم ہے کہ وہ سامان اور وصول کی ہوئی رقم اس مسجد کو واپس کردیں۔

حوالہ جات

الدر المختار (4/ 358):

    ( ولو خرب ما حوله واستغنى عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني ) أبدا إلى قيام الساعة،

    ( وبه یفتی) حاوی القدسی.

رد المحتار (4/ 358):

مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره قوله (ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر. قوله (عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى،حاوي القدسي،وأكثر المشايخ عليه،مجتبى،وهو الأوجه فتح ا هـ بحر  .

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

29/صفر المظفر/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب