70339 | نماز کا بیان | جمعہ و عیدین کے مسائل |
سوال
اگریہاں پرنمازجمعہ جائزنہ ہوتوجمعہ کی نماز پڑھنےوالوں کونمازیں ازسرنواداءکرنی پڑیں گی یانہیں،اوراس کاذمہ امام صاحب ہوگایاجس مفتی نےفتوی دیاہےوہ ذمہ دارہوگا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اس فتوی کےذمہ دار مفتی صاحب ہیں،جنہوں نےجمعہ کےجوازکافتوی دیاہے۔
اگرکمشنرنےمفتی صاحب کواختیاردیااورمفتی نے(قریہ مختلف فیہاکےبارےمیں)اپنےاجتہادسےجمعہ کےجوازکافتوی دیاتھاتو اب تک جوجمعہ کی نماز غلطی سےپڑھی گئی وہ اداء ہوگئی،اس کی جگہ ظہرپڑھنےکی ضرورت نہیں۔(لیکن مسئلہ واضح ہونےکےبعدوہاں جمعہ کوختم کرناضروری ہوگا،اوراس کےبعدجمعہ کےبجائےظہرکی نماز پڑھی جائے)
اوراگرکمشنرکی طرف سےباقاعدہ اختیارنہیں دیاگیااورمفتی صاحب نےخودجمعہ کافیصلہ کردیاتواب تک جتنےجمعہ پڑھے گئےہیں ان کی جگہ ظہر کی نماز پڑھنالازم ہوگا۔نوٹ:مذکورہ جواب سوال میں ذکرکردہ وضاحت اورتنقیح کےمطابق دیاگیاہے،جگہ کی مکمل صورت حال اورمحل وقوع کےاعتبارسےبہتریہ ہےکہ علاقےکےقریبی معتبردارالافتاء جاکروہاں کےمفتیان کرام(جن پرعلاقےکےلوگ اعتمادکرتےہوں)کووہ جگہ دکھاکرفتوی حاصل کرکےاس پرعمل کریں۔
حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 2 / 149:
ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري: إذا بنى مسجد في الرستاق بأمر الامام فهو أمر۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
02/ربیع الاول1442 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |