03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض رقم کی واپسی کے بجائے زمین دے کر زیادہ قیمت پر واپس لینا
70391جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

زید زمین حاصل  کر کے اس پر پلاٹنگ کر کے بیچنے کا  وسیع کاروبار کرتا ہے اور زمین کے حصول کیلئےمعاہدات کر کے بکر سے گاہے گاہے رقم لیتا رہتا ہے جس کی شرائط دونوں کے بیچ رضامندی سے طے پاتی ہیں۔ 

اب اسی طرح کے ایک معاہدے میں زید کے  ذمہ بکر کی ایک رقم واجب الادا ہے جو وہ فی الفور نہیں دے پا رہا، لہٰذا  زید اور بکر دونوں اپنی رضامندی سے یہ چاہتے ہیں کہ اس رقم کو ایک اور معاہدہ سے تمویل  کیلئے استعمال کریں جس کی شرائط درج ذیل ہوں گی:

۱۔  زید اس واجب الادا رقم کے عوض ایک قطعہ ارضی متعین رقم (مثلاً۴۰ لاکھ فی کنال کے اعتبار سے) بکر کو بیچے گا،اس قطعہ ارضی کا تعیّن  پہلے سے ہوا ہے اور اس کی باؤنڈری وال (دیوار) بھی موجود ہے اور زید نے موقع پر اس جا کر بکر کو اس کا قبضہ بھی دے دیا ہے۔

۲۔ زید اب یہی متعیّن شدہ زمین بکر سے متعّین شدہ رقم (مثلاً۵۰ لاکھ فی کنال) کے عوض خریدے گااور اس کا قبضہ علی الفور زید کو حاصل ہوجائے گا جبکہ رقم کی ادائیگی چھ ماہ  بعد ہوگی۔

۳۔ اس معاہدے سے زید کو یہ فائدہ ہو گا کہ واجب الاداء  رقم کے عوض اس نے زمین کی ملکیت اور قبضہ بکر کے حوالے کردیا تو قرض کی اس ذمہ داری سے مبرّا ہو گیا اور زمین واپس خرید کر اس کی ادائیگی چھ ماہ بعد کرنے سے زمین کی ملکیت اور قبضہ اسے واپس مل گیا اور وہ چاہے تو اس کی پلاٹنگ کر کے لوگوں کو فروخت کر سکتا ہے اور ملنے والی رقم سے بکر کو چھ ماہ بعد زمین کی قیمت ادا کر دے گا۔

۴۔ اس  معاہدے سے بکر کو یہ فائدہ ہے کہ وہ رقم جو فی الفور زید نے اسے دینی تھی وہ اب چھ ماہ بعد اسے ملے گی البتہ اس میں بڑھوتری بھی ہو گی، یعنی ۴۰ کے بجائے ۵۰ لاکھ فی کنال کے اعتبار سے ملیں گے۔

کیا  یہ معاہدہ ان مذکورہ شرائط کے ساتھ  شریعت کی نظر میں درست ہے،اگر نہیں تو اس میں جو خرابی ہے وہ کس طرح درست کی جاسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں جو معاملہ کیا جارہا ہے وہ بیع عینہ کے برعکس ایک صورت ہے،کیونکہ بیع عینہ میں قرض دینے والا قرض خواہ کو قرض حسنہ دینے کے بجائے کوئی چیز ادھار فروخت کرکے پھر دوبارہ کم قیمت میں واپس خریدلیتا ہے،جبکہ یہاں مقروض قرض کی ادائیگی کے بجائے قرض دینے والے کو زمین بیچ کر پھر وہی زمین ادھار پر زیادہ قیمت میں اس سے خرید رہا ہے۔

فقہاءِ حنابلہ نے اس صورت کو مطلقا ناجائز قرار دیا ہے،جبکہ فقہاءِ احناف کے نزدیک اصولی طور پر اگرچہ یہ صورت جائز ہے کہ خریدار خریدی ہوئی چیز کو خریداری کا معاملہ مکمل ہونے کے بعد اتفاقی طور پر ایک نئے معاملے کے ساتھ بیچنے والے کو سابقہ قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کردے،لیکن چونکہ خریدوفروخت کا یہ طریقہ کار سودی حیلے کے طور پر اپنانا بھی ممکن ہے،اس لیے باقاعدہ طور پر پہلے سے طے کرکے اس طریقے سے دو معاملے کرنا سودی حیلہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

چونکہ مذکورہ صورت میں حقیقت میں زمین کی خرید وفروخت مقصود نہیں،بلکہ قرض رقم پر نفع حاصل کرنے کے لیے صریح سود سے بچنے کی خاطر فقط ایک حیلے کے طور پر زمین کی خرید و فروخت کو درمیان میں لایا جارہا ہے،اس لیے مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ یہ معاملہ جائز نہیں ہے۔

مذکورہ صورت میں بنیادی خرابی کی وجہ زید کے اس زمین کو بکر سے زیادہ قیمت پر دوبارہ خریدنے اور اس بات کو پہلے سے طے کرنےکی وجہ سے آرہی ہے،اس لیے اگر زید اس زمین کو دوبارہ نہ خریدے،بلکہ بکر اپنی مرضی سے کسی اور کو فروخت کردے،یا پھر زید اس کے ساتھ مل کر اس کی پلاٹنگ کرکے دوسروے لوگوں پر فروخت کرے یا پلاٹنگ کیے بغیر پوری زمین کسی اور کو نفع کے ساتھ فروخت کردے  تو یہ سب صورتیں جائز ہوں گی اور ان میں زیدکے لیے بکر سے کمیشن لینا بھی جائز ہوگا۔

حوالہ جات
"المغني لابن قدامة "(4/ 133):
"وإن باع سلعة بنقد، ثم اشتراها بأكثر منه نسيئة، فقال أحمد، في رواية حرب: لا يجوز ذلك إلا أن يغير السلعة؛ لأن ذلك يتخذه وسيلة إلى الربا، فأشبه مسألة العينة فإن اشتراها بنقد آخر، أو بسلعة أخرى، أو بأقل من ثمنها نسيئة، جاز؛ لما ذكرناه في مسألة العينة. ويحتمل أن يجوز له شراؤها بجنس الثمن بأكثر منه، إلا أن يكون ذلك عن مواطأة، أو حيلة، فلا يجوز. وإن وقع ذلك اتفاقا من غير قصد، جاز؛ لأن الأصل حل البيع، وإنما حرم في مسألة العينة بالأثر الوارد فيه، وليس هذا في معناه، ولأن التوسل بذلك أكثر، فلا يلتحق به ما دونه. والله أعلم".
"المبدع في شرح المقنع "(4/ 49):
"فرع: إذا باع سلعة بنقد، ثم اشتراها بأكثر منه نسيئة فهي عكس العينة، وهي مثلها نقله حرب إلا أن تتغير صفتها".
"الدر المختار " (5/ 73):
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافا للشافعي (وشراء من لا تجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضا خلافا لهما في غير عبده ومكاتبه (ولا بد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقا) كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد".
"المبسوط للسرخسي" (30/ 210):
"فالحاصل: أن ما يتخلص به الرجل من الحرام أو يتوصل به إلى الحلال من الحيل فهو حسن، وإنما يكره ذلك أن يحتال في حق لرجل حتى يبطله أو في باطل حتى يموهه أو في حق حتى يدخل فيه شبهة فما كان على هذا السبيل فهو مكروه، وما كان على السبيل الذي قلنا أولا فلا بأس به؛ لأن الله - تعالى - قال {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ففي النوع الأول معنى التعاون على البر والتقوى، وفي النوع الثاني معنى التعاون على الإثم والعدوان".
"الموسوعة الفقهية الكويتية "(18/ 332):
"إن الحيل المحرمة تقوم على المخادعة والتلبيس والتدليس، وعلى اتخاذ الوسائل المشروعة، وغير المشروعة، للوصول إلى الحرام  ومن أمثلة ذلك:
قول المرابي بعتك هذه السلعة بكذا كما في بيع العينة عند الجمهور على أن يستردها منه بأقل مما باعها، ولم يكن مريدا لحقيقة البيع، وليس لأحد من البائع والمشتري غرض في السلعة بوجه من الوجوه، وإنما قصد البائع عود السلعة إليه بأكثر من ذلك الثمن".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب