021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک بحری جہاز پر موجود امام کی اقتدا دوسرے بحری جہاز پر کھڑے ہوکر کرنے کا حکم
70539نماز کا بیاننماز کےمتفرق مسائل

سوال

ماہ رمضان میں ہمارے تمام جہازوں میں الگ الگ حفاظ کرام تراویح پڑھاتے ہیں۔جب جہاز بندرگاہ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو حفاظ کرام کی قرأت کی الگ الگ آوازیں مقتدیوں کو سنائی دیتی ہیں۔جبکہ ایک جہاز والوں کو دوسرے جہاز پہ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔تو کیا دو جہازوں کے لوگ اپنے اپنے جہاز پہ ایک امام کے پیچھے فرض نماز یا تراویح پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟جبکہ دونوں جہازوں کے درمیان دس سے بارہ فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اقتدا کے درست ہونے کے لیے  امام اور مقتدی کی جگہ  کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً۔لہٰذا مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد میں  اگر امام اور مقتدی، یا مقتدیوں کی صفوں کے درمیان دو صفوں کی مقدار  یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو   تب  بھی صحتِ اقتدا سے مانع نہیں ہوگا، اور نماز ادا ہوجائے گی، مگر بلاضرورت  فاصلہ چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے۔

اور  مسجد سے باہر  جیسا کہ صورت مسئولہ میں بندرگاہ پر مختلف جہازوں  میں،میدان  یا صحراء وغیرہ میں اگر جماعت ہورہی ہو  تو چوں کہ یہ مکان ایک نہیں ہے؛ اس لیے حقیقتاً اتصال ( یعنی صفوں کا متصل ہونا ) ضروری ہے، لہٰذا اگر امام اور  مقتدی کے درمیان  دو صفوں کے بقدر ( تقریباً آٹھ فٹ) یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو یہ بھی صحت اقتداسے مانع ہوگا، اور ان لوگوں کی نماز ادا نہیں ہوگی۔لہٰذا ایک جہاز پر کھڑے ہوکر دوسرے جہاز پر موجود امام کی اقتدا کرنا درست نہیں۔

                           

حوالہ جات
      قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ:(قال): ولا يجوز أن يأتم رجل من أهل السفينة بإمام في سفينة أخرى لأن بينهما طائفة من النهر إلا أن يكونا مقرونين فحينئذ يصح الاقتداء لأنه ليس بينهما ما يمنع صحة الاقتداء فكأنهما في سفينة واحدة لأن السفينتين المقرونتين في معنى ألواح سفينة واحدة وكذلك إن اقتدى من على الحد بإمام في سفينة لم يجز اقتداؤه إذا كان بينهما طريق أو طائفة من النهر وقد بينا هذا فيما سبق(قال): ومن وقف على الأطلال يقتدي بالإمام في السفينة صح اقتداؤه إلا أن يكون أمام الإمام لأن السفينة كالبيت واقتداء الواقف على السطح بمن هو في البيت صحيح إذا لم يكن أمام الإمام. ( المبسوط للسرخسي :2/ 3)
  فی الفتاوی الھندیۃ:ولا يجوز أن يأتم رجل من أهل السفينة بإمام في سفينة أخرى فإن كانت السفينتان مقرونتين يجوز، كذا في الخلاصة، وفي النوازل إذا كان بحال يقدر أن يثب من إحداهما إلى الأخرى من غير عنف فهما بمنزلة المقرونتين وتجوز صلاة الطائفتين، كذا في التتارخانية.ومن اقتدى على الجد بإمام في السفينة أو على العكس فإنه ينظر إن كان بينهما طريق أو طائفة من النهر لم يجز الاقتداء وإن كان على العكس يجوز. (الفتاوى الهندية:1/ 144)    
 إذا كان بين الإمام وبين المقتدي طريق إن كان ضيقًا لايمر فيه العجلة والأوقار لايمنع وإن كان واسعًا يمر فيه العجلة والأوقار يمنع،كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة. هذا إذا لم تكن الصفوف متصلةً على الطريق، أما إذا اتصلت الصفوف لايمنع الاقتداء ... والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين .

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

    23 ربیع الاول1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب / شہبازعلی صاحب