021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشتبہ آمدنی والےکےہاں کھاناکھانایاان کی طرف سےہدیہ قبول کرنا
70590جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

سوال:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ !میرے تایا کے تین بیٹے ہیں ایک بیٹا سودی بینک میں ملازمت کرتا ہے دوسرا بیٹا کسی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے اور تیسرے بیٹے کی کپڑے کی دکان ہے اور ایک بیٹی ایئر ہوسٹس کی جاب کرتی ہے ،مفتی صاحب! مجهے آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ہم اپنے تایا کے گهر کا کهانا کها سکتے ہیں؟ اور ان کا دیا ہوا ہدیہ استعمال کرسکتے ہیں؟ یہ سب ہمارے لیے حلال ہوگا یا نہیں؟

2zshahhuzaifa7979@gmail.com   بنت حوا

تنقیح:جس بیٹےکی کپڑےکی دکان ہےیہ دکان پہلےتایا(اس کےوالد)کی تھی،اب تایانےبیٹےکودیدی،فی الحال تایاکوئی جاب(ملازمت وغیرہ) نہیں کرتے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سودیاکسی بھی حرام طریقےسےکمانےوالےکاروباری لوگوں کےبارےمیں اگریہ معلوم ہوکہ ان کااکثر مال حرام ہےتوان کےہاں  کھاناپیناجائزنہیں،لیکن اگریہ وضاحت کردیں کہ یہ دعوت یاکھاناوغیرہ خاص طورپرحلال مال سےتیارکیاگیاہےتوپھرجائزہےاوراگران کےمال میں اکثریت حلال ہےتوپھرکھاناپیناجائزہے۔

اصولی طورپراس مسئلہ میں بھی تایاکےذریعہ معاش کودیکھاجائےگا،اگرتایاکی اکثرآمدنی حلال ہےتوتایاکےہاں کھاناکھایاجاسکتاہےورنہ نہیں۔

سائل کےمطابق تایاکی اپنی آمدن نہیں ہے،لہذااگرتایاکاخرچہ ان بچوں کی آمدن سےہےیااس کااکثر حصہ جائزکمائی والےبچوں کی آمدن سےہےتوتایاکےگھرکھانااوراس کاہدیہ قبول کرناجائزہےورنہ نہیں۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

حوالہ جات
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني"ج 10 / 178:
وفي «عيون المسائل»: رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه۔
 
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر" 8 / 138:
( ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور ) لأن الغالب في مالهم الحرمة ( إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل ) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به ۔
وفي البزازية غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام ؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال أورثته واستقرضته ولهذا قال أصحابنا لو أخذ مورثه رشوة أو ظلما إن علم وارثه ذلك بعينه لا يحل له أخذه وإن لم يعلمه بعينه له أخذه حكما لا ديانة فيتصدق به بنية الخصماء۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

02/ربیع الثانی  1442 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب