021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ثمن کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں بیع کا حکم
70719خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے عبد الرزاق ولد حاجی بہادر خان سے ایک پلاٹ خریدا اور اس کو کچھ ادائیگی کردی،بعد میں ہم نے ایک تحریری معاہدہ کیا کہ تین ماہ کے اندر اندر یکمشت ادائیگی کروں گا ،لیکن مجھ سے ادائیگی کرنے میں تاخیر ہوئی اور 3 کی بجائے تقریبا 5 ماہ  کے بعد میں نے اس کو قیمت پہنچادی اور اس نے قبول کرلی ۔ پلاٹ کی قیمت میں سے 75 ہزار اس نے پہلے مجھے چھوڑ دیے  لیکن بعد میں اس سے مکر گیا ،بہرحال 75 ہزار اس کے میرے ذمہ تھے اور اس نے دوبارہ پلاٹ پر دعوی کردیا۔ثالثی کے لیے ہم نے حاجی قیوم شاہ کو منتخب کیا ،انہوں نے اس پلاٹ کے متعلق جو فیصلہ کیا اس میں سودے کو برقرار رکھتے ہوئے اس وقت 75 ہزار کے بقدر جتنی زمین بنتی تھی اس کی آج کی قیمت لگاکر دس لاکھ اسی ہزار روپے مجھ پر لازم کردیے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا شرعا یہ لازم ہےکہ میں اس رقم کی ادائیگی کروں اور ان کے لیے اس رقم  کا لینا جائز ہوگا؟

                                     تنقیح:سائل سے معلوم کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ بیع  میں قیمت ادھار ہونے کی شرط نہیں لگائی تھی اور بیع کے بعد جب فروخت کنندہ  نے قیمت کا مطالبہ کیا تو  تقریبا 10 لاکھ ادا کردیا گیا اور بقیہ رقم کے لیے تین ماہ کی مہلت لی۔نیز کچھ ثمن چھوڑنے کی بابت یہ بات سامنے آئی کہ فروخت کنندہ  اس بات ہی سے  انکاری ہے کہ اس نے  کچھ قیمت چھوڑی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بیع مطلق(جس میں قیمت ادھار ہونے کی شرط نہ لگائی ہو) میں بیع ہوتے ہی خریدار خریدی گئی چیز کے مطالبے کا مستحق ہوتا ہے اور فروخت کنندہ قیمت کا، البتہ اگر بائع یا مشتری دوسرے فریق کو کچھ مہلت دے دے تو یہ اس کی طرف سے ایک احسان  ہوتا ہے جو اس پر شرعا لازم نہیں ہوتا۔نیز ایسی صورت میں اگر مجہول مدت تک مہلت دی جائے تو اس سے سابقہ بیع کے جواز میں کوئی فرق نہیں آتا۔

            اس وضاحت کی روشنی میں  صورت مذکورہ کے مطابق جب بیع ہونے کے بعد بعض ثمن لے  لیا  گیا اور  

بقیہ رقم کے لیے 3 ماہ مہلت دے دی گئی تو اس سے بیع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔نیز پھر وہ رقم جب 5 ماہ کے عرصے میں ادا کی گئی اور بائع نے اسے قبول بھی کرلیا تو اب بائع کی طرف سے اپنے پلاٹ پر دعوی دائر کرنا شرعا درست نہیں۔نیز اگر  اس نے کچھ  ثمن  چھوڑ دیا تھا تو  بائع کا وہ 75 ہزار مانگنا بھی درست نہیں تھا ، لیکن اگر بائع اس بات سے انکار کرتا ہے کہ میں نے 75 ہزار ثمن چھوڑا تھا، تو اس صورت میں مشتری  کے پاس اگر گواہ یا کوئی دلیل ہو تو وہ پیش کرے وگرنہ بائع  اس بات پر قسم اٹھائے گا کہ میں نے یہ رقم نہیں چھوڑی تھی  تو خریدار  کو وہ 75 ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔75 ہزار روپے کے بقدر زمین کا حساب لگا کر  موجودہ  ریٹ کے مطابق  اس کے ثمن کا مطالبہ کرنا شرعا  بالکل  باطل اور ناجائز ہے، لہٰذا ثالث کا کیا گیا فیصلہ شرعا معتبر نہیں ہے(اس لیے کہ ثالث کا کیا گیا فیصلہ شریعت کے مطابق نہیں ہے) اور نہ ہی ان کے فیصلے سے مشتری پر یہ رقم لازم ہوگی بلکہ مشتری وہی 75 ہزار ادا کرے گا اور پلاٹ مشتری ہی کا ہوگا۔

     

حوالہ جات
قال المفتی محمد تقی العثمانی  مدظلہ:اما البیع الحال ،فحکمہ :انہ متی وقع البیع ،استحق المشتری مطالبۃ تسلیم المبیع ،واستحق البائع مطالبۃ تسلیم الثمن فورا،و ان اعطی احدھما الاخر مھلۃ لتسلیم ماعلیہ ،فانۃ تطوع ،ولیس حقا لہ۔ولذلک ان امھلہ الی اجل غیر معلوم ،مثل :مایقول بعض التجار لبعض اھل معرفتہ:اد الثمن متی شئت ،فانہ بیع حال مھل فیہ البائع المشتری تطوعا،ولذلک یحق لہ ان یطالبہ بالثمن متی شاء۔ولو کان بیعا مؤجلا،لفسد البیع،لجھالۃ الاجل ،و لکنہ جائز علی کونہ حالاثم حق حبس المبیع عند من یقول بہ انما یثبت فی البیع الحال دون المؤجل ،کما سیاتی،حتی ان ھذا الحق یبطل  اذا اخر البائع حقہ فی  استیفاء الباقی ، لان المبیع فی استحقاق الحبس بالثمن لا یتجزا، فکان کل المبیع محبوسا بکل جزء من اجزاء الثمن ، و کذلک لو باع شیئین  صفقۃ  واحدۃ ، وسمی لکل واحد منھما ثمنا ، فنقد المشتری حصۃ احدھما کان للبائع حبسھما حتی یقبض حصۃ الاخر، لما قلنا(فقہ البیوع:1/520)
قال العلامۃ عبد اللہ بن محمود الموصلی:الدعوى مشتقة من الدعاء وهو الطلب.وفي الشرع: قول يطلب به الإنسان إثبات حق على الغير لنفيه، والبينة من البيان، وهو الكشف والإظهار؛ والبينة في الشرع تظهر صدق المدعي وتكشف الحق. والأصل في الباب قوله صلى الله عليه وسلم "لو ترك الناس ودعواهم لادعى قوم دماء قوم وأموالهم، لكن البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه "؛ وفي رواية: " واليمين على من أنكر"، ويروى "أن حضرميا وكنديا اختصما بين يدي رسول الله  صلى الله عليه وسلم ، في شيء، فقال للمدعي: " ألك بينة؟ " قال: لا، فقال: " لك يمينه ليس غير ذلك" . (الاختیار لتعلیل المختار:2/109)
                       قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ:(كتاب الدعوى) (قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد
شمس الأئمة وفخر الإسلام أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي إملاء: اعلم بأن الله تعالى خلق الخلق أطوارا علومهم شتى متباينة ،ولتباين الهمم تقع الخصومات بينهم، فالسبيل في الخصومة قطعها) لما في امتدادها من الفساد، والله تعالى لا يحب الفساد ،وطريق فصل الخصومات للقضاة بما ذكره رسول الله  صلى الله عليه وسلم ،"قال البينة على المدعي واليمين على المدعى عليهوهذا الحديث يشتمل على أحكام بعضها يعرف عقلا وبعضها شرعا فقوله  صلى الله عليه وسلم ،البينة على المدعي،يدل على أنه لا يستحق بمجرد الدعوى، وهذا معقول لأنه خبر متمثل بين الصدق، والكذب، والمحتمل لا يكون حجة فدل على أنه يستحق بالبينة، وهذا شرعي وفي خبر الشهود الاحتمال قائم ولا يزول بظهور العدالة لأن العدل غير معصوم عن الكذب، أو القصد إلى الكذب فحصول البينات، أو الاستحقاق بشهادتهم شرعي، وكذلك قوله  صلى الله عليه وسلم  "اليمين على المدعى عليه"، ففيه دليل على أن القول قوله، وهذا معقول؛ لأنه متمسك بالأصل فالأصل براءة ذمتهالخ. (المبسوط للسرخسی رحمہ اللہ:17/29)

   محمد عثمان یوسف

     دارالافتاءجامعۃ الرشید کراچی

                 8  ربیع الثانی 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عثمان یوسف

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب