021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اقامت کے وقت امام اور مقتدیوں کو کب کھڑا ہونا چاہیے؟
70727نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ہمارے محلے میں بریلوی حضرات کی مساجد ہیں۔ امام صاحب اور دیگر مقتدی حضرات صرف حی علی الصلاۃ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تکبیر شروع ہوتے ہی کھڑا ہوجائے تو ان کی جبین شکن آلود ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ صفوں کو درست اور سیدھی رکھنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ پر کھڑا ہونا فروعی اور اجتہادی مسئلہ ہے یا نماز کی بنیادی شرائط میں سے ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ مسئلے کا تعلق آدابِ نماز سے ہے، نماز کی شرائط سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ امام اور مقتدی حضرات اقامت کے وقت کب کھڑے ہوں؟ اس مسئلے کی کئی صورتیں بن سکتی ہیں جن کے الگ الگ احکام ہیں۔ سوال میں ذکر کردہ صورتِ حال کا اصولی جواب یہ ہے کہ امام اور مقتدی حضرات کا اقامت کی ابتداء سے کھڑا ہونا یا حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا دونوں طریقے درست ہیں، لیکن شروع سے کھڑا ہونا صفیں سیدھی کرنے میں معاون ہے، اس اعتبار سے یہ اولیٰ اور بہتر ہے۔

البتہ اگر امام اقامت کی ابتداء میں بیٹھا ہو تو پھر مقتدیوں کو کھڑا نہیں ہونا چاہیے، انہیں بھی بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے، جب امام حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح پر کھڑا ہو تو اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوں، اسی طرح اگر امام اور مقتدی صف میں بیٹھے ہوں اور اس دوران کوئی آئے تو اس کے لیے بھی کھڑا رہنے کے بجائے ان کی موافقت میں بیٹھنا بہتر ہے۔ (مأخذہ امداد الاحکام: 1/469 تا 476)

حوالہ جات
الدر المختار (1/ 479-477):

 ( ولها آداب ) تركه لا يوجب إساءة ولا عتابا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل ( نظره إلى موضع سجوده حال قيامه….……..( والقيام ) لإمام ومؤتم ( حين قيل حي على الفلاح ) خلافا لزفر، فعنده عند حي على الصلاة، ابن كمال ( إن كان الإمام بقرب المحراب، وإلا فيقوم كل صنف ينتهي إليه الإمام على الأظهر ) وإن دخل من قدام قاموا حين يقع بصرهم عليه، إلا إذا قام الإمام بنفسه في مسجد فلا يقفوا حتى يتم إقامته، ظهيرية، وإن خارجه قام كل صف

ينتهي إليه، بحر.
رد المحتار(1/ 479):

قوله ( حين قيل حي على الفلاح) كذا في الكنز ونور الإيضاح والإصلاح والظهيرية والبدائع وغيرها، والذي في الدرر متنا وشرحا عند الحيعلة الأولى يعني حيث يقال حي على الصلاة اه، وعزاه الشيخ إسماعيل في شرحه إلى عيون المذاهب والفيض والوقاية والنقاية والحاوي والمختار ا هـ . قلت: واعتمده في متن الملتقى, وحكى الأول بقيل، لكن نقل ابن الكمال تصحيح الأول،  ونص عبارته: قال في الذخيرة يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة، وقال الحسن بن زياد وزفر إذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قاموا إلى الصف وإذا قال مرة ثانية كبروا والصحيح قول علمائنا الثلاثة ا هـ . قوله ( خلافا لزفر الخ ) هذا النقل غير صحيح وغير موافق لعبارة ابن كمال التي ذكرناها، وقد راجعت الذخيرة فرأيته حكى الخلاف كما نقله ابن كمال عنها ومثله في البدائع وغيره.  قوله ( وإلا الخ ) أي وإن لم يكن الإمام بقرب المحراب بأن كان في موضع آخر من المسجد أو خارجه ودخل من خلف ح.  قوله ( في مسجد ) الأولى تعريفه باللام قوله ( فلا يقفوا ) الأنسب فلا يقفون بإثبات النون على أن لا نافية لا ناهية قوله ( وإن خارجه ) محترز قوله في مسجد.  قوله ( بحر ) لم أره فيه بل في النهر.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

12/ربیع الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب