03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کونڈے اور محرم، ربیع الاول وغیرہ میں رائج رسوم کا حکم
70729سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

کونڈے، محرم، ربیع الاول اور دیگر معراج وغیرہ ایام میں پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی طرف سے جو شربت، حلیم، بریانی اور میٹھا گھروں میں آتا ہے۔ کیا ان کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے؟ اگر درست نہیں تو ایسے کھانوں اور مشروبات کا کیا کیا جائے؟ نیز ان ایام میں خواتین اور بچوں، بچیوں کو جلوسوں میں لے جانا درست ہے یا نہیں؟ جلوسوں میں تبرکات بانٹنے اور گاڑیوں سے پھینکنا رزق کی ناقدری اور ضیاع ہے یا نہیں؟ ان ایام کے لیے چندہ جمع کرنا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کونڈے، اور محرم الحرام، ربیع الاول وغیرہ کے مروجہ رسوم اور جلوس بے اصل، من گھڑت اور بدعت ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں، لہٰذا ان کے لیے چندہ کرنا، ان میں شرکت کرنا یا گھر کی

خواتین اور بچوں، بچیوں کو لے کر جانا درست نہیں، اس سے بچنا ضروری ہے۔

جہاں تک ان دنوں میں خاص رسم اور نظریے کے ساتھ پکنے والے کھانوں کا تعلق ہے تو اگر وہ غیر

اللہ کے نام پر پکائے جائیں تب تو انہیں لینا اور کھانا جائز نہیں، حرام ہے۔ اور اگر غیر اللہ کے نام پر نہ پکائے جائیں تو وہ کھانے حرام نہیں ہوں گے، لیکن چونکہ ایک خاص نظریے کے تحت یہ کھانے پکانا اور تقسیم کرنا بدعات کا حصہ ہے، انہیں لینے سے بدعت کی ترویج اور تقویت لازم آتی ہے، اس لیے ان کے لینے سے بچنا چاہیے۔ پڑوسیوں اور رشتہ دارں کو بھی حکمت کے ساتھ سمجھانا چاہیے کہ وہ ان رسوم اور بدعات  کو چھوڑدیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی پڑوسی یا رشتہ دار ان رسوم کا کھانا گھر بھیج دے اور اسے نہ لینے کی صورت میں قطع تعلقی یا اور کسی بڑی خرابی کا اندیشہ ہو تو اسے لینے اور استعمال کرنے کی گنجائش ہے، بہتر یہ ہے کہ کسی فقیر کو دیدے۔  

حوالہ جات
كتاب الاعتصام للشاطبي (1/ 22):

ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد ، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيداً ، وما أشبه ذلك .

ومنها : التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة ، كالتزام صيام يرم النصف من شعبان وقيام ليلته .                                                                                      

رد المحتار (2/ 439):

مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه:  قوله ( تقربا إليهم ) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو الطعم أو الشمع أو الزيت كذا بحر .

قوله ( باطل وحرام ) لوجوه منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك،   ومنها أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو أشتري حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

12/ربیع الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب