021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں کامیراث چھوڑنایامعاف کرنا
73633میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

1997میں جب میرے دادا  ابو فوت ہوئے تو ان کی وراثت 60ایکڑزمین تھی ،اس وقت ان کے چار بیٹے اورچاربیٹیاں زندہ تھیں اورسب کے سب عاقل بالغ اورشادی شدہ تھے ،دادا کی وفات کے بعد میرے والد صاحب اورمیرے بڑے چچااپنی تمام بہنوں کے پاس  گئےاوران سے کہا کہ آپ اگر جائیدادمیں سے حصہ لینا چاہیں توہ لے لیں یاا تنی رقم لے لیں یا معاف کرناچاہیں تو معاف کردیں ،ایک بہن نے رقم لے لی اورتین نے حصہ معاف کردیا  توپھر وہ 60ایکڑ 4بیٹوں اورپانچویں بیٹے جو دادا سے پہلے فوت ہوچکے تھے ان کی اولاد میں تقسیم کردی گئی ،اس طرح میرےوالد صاحب کے حصے مین 12ایکڑزمین آگئی ،ساڑھے تین ایکڑوالد صاحب نے اپنی زندگی میں فروخت کردی تھی اوربقیہ ساڑھے آٹھ ایکڑزمین اب والد صاحب کی وفات کے بعد ہم تین بھائیوں اوردو بہنوں اوروالد ہ میں شرعی طریقے  سے تقسیم کردی گئی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ میرے حصے میں جوتقریباً دو ایکڑزمین آئی ہے کیا وہ ٹھیک ہے یا کچھ میرے ذمہ  اب بھی باقی ہے ،دادا ابو کی بیٹیوں کو حصہ نہ دینے کی وجہ سے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

١۔ شریعت مطہرہ نے جس طرح اصل ترکہ میں مذکر ورثاء (لڑکوں) کے حصص مقرر کیے ہیں ، اسی طرح مؤنث ورثاء (لڑکیوں) کے بھی حصے بیان کیے ہیں۔

۲۔پھر میراث کی تقسیم میں لوگوں کی لغزشوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے رب ذوالجلال نے اپنے پاک کلام میں میراث کے اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ جزئیات تک بیان فرما دیں اور اس کے لیے ایک قانون اور ضابطہ مقرر کیا۔

۳۔میراث کو شرعی اصول وضوابط کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں اور ان حدود پر گامزن نہ رہنے والوں کو جہنم کے دائمی عذاب سے متنبہ کیا ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق بیان فرمایا ”جس نے اپنے وارث کا حق مارا، قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کو اس کے جنت کےحصہ سے محروم کر دیں گے “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی کی زمین سے ظلماً ایک بالشت جگہ لی تو اس کو قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق پہنا یا جائے گا۔“

۴۔وراثت میں سے اپنی بہنوں کو محروم کرنا زمانہ جاہلیت کی بُری رسم ہے ، جوکہ شریعت سے متصادم ہے، اس کا ترک ہمارے ذمہ فرض اور ضروری ہے ۔

اس تمہید کے بعد آپ کےسوال کا جواب یہ ہے کہ کسی وارث کا ترکہ میں سے کچھ لئے بغیر زبانی طور پراپنا حصہ بخش دینا درست نہیں، اس سے اس کا ترکہ میں حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور باقی رہتاہے،لہذا مسؤلہ صورت میں آپ کے دادا ابو کے تین بیٹیوں نے ان کی وفات کے بعدآپ کے والداور چچا کے سامنے جو زبانی طور پر اپنا حصہ معاف کیا ہے وہ معاف نہیں ہوا ،اب بھی وہ اپنا حق مانگ سکتی ہیں اوردیگرورثہ  پر  لازم ہے کہ ان کاحق پورا پورا اداکرے اگر کسی زمین یا جائیداد کے عوض اس کی قیمت دینا چاہیں تو موجودہ قیمت دینا لازم ہوگی۔

آپ کے دادا ابو کےجس بیٹی نےکچھ نقد رقم لیکر اپنا حق معاف کیاہے وہ معاف ہوگیاہے،بشرطیکہ آپ کے دادابو کے ترکہ میں کسی پر قرض نہ ہواور جتنی نقدرقم مذکورہ بیٹی نےلی ہے،باقی ترکہ میں یا تو نقد رقم بالکل نہ ہویا ہومگر اس میں  متعلقہ بیٹی کا باقی ماندہ حصہ لی جانے والی رقم سےزائد ہو،کم یا برابرنہ ہو۔

جن تین بہنوں کا حق معاف نہیں ہوا وہ اب چونکہ بھائیوں اورپھر ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوچکا ہے،لہذا ان سب پرلازم ہے کہ داداکی مذکورہ بیٹیوں کوان کے شرعی حصے لوٹادیں،اگروہ نہ رہے ہوں تو ان کی اولاد کو لوٹادیں یا باہمی رضامندی سےکوئی چیز دیکر ان سے صلح کرلیں،اورآخرت کی مواخذہ سےاپنے آپ کو بچائیں۔

واضح رہے کہ وراثت کا حقدار بننے کیلئے مورِث کے انتقال کے وقت وارث کا زندہ ہونا شرعاً ضروری ہےلہذامسئولہ صورت میں دادا کی زندگی میں جو بیٹا فوت ہواہے، دادا کی میراث میں اس کی اولاد شرعاً وارث اور حقدار نہیں ہیں،تاہم اگرسب ورثہ عاقل، بالغ تھے اورانہوں نے اپنی رضامندی سے مذکورہ بھائی کے بچوں کو ترکہ میں سے کچھ دیا ہےتویہ اچھی بات ہےاور باعثِ اجروثواب ہے،تاہم چونکہ اس میں بھی دادا کی مذکورہ بیٹیوں کاحصہ آگیاہے، لہذا وہ بھی دادا کی بیٹیوں کا حصہ واپس کریں گے،یا ان کو کچھ دیکر صلح کریں گے ۔

باقی ہر وارث کو کتناحصہ ملے گا،اس کےلئے ترتیب سے ہر فوت ہونےوالے کا نام اوراس کی موت کے وقت موجود ورثة اوران کے نام لکھ کر دوبارہ پوچھنا ہوگا۔

حوالہ جات
جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔
١۔ شریعت مطہرہ نے جس طرح اصل ترکہ میں مذکر ورثاء (لڑکوں) کے حصص مقرر کیے ہیں ، اسی طرح مؤنث ورثاء (لڑکیوں) کے بھی حصے بیان کیے ہیں۔
۲۔پھر میراث کی تقسیم میں لوگوں کی لغزشوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے رب ذوالجلال نے اپنے پاک کلام میں میراث کے اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ جزئیات تک بیان فرما دیں اور اس کے لیے ایک قانون اور ضابطہ مقرر کیا۔
۳۔میراث کو شرعی اصول وضوابط کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں اور ان حدود پر گامزن نہ رہنے والوں کو جہنم کے دائمی عذاب سے متنبہ کیا ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق بیان فرمایا ”جس نے اپنے وارث کا حق مارا، قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کو اس کے جنت کےحصہ سے محروم کر دیں گے “ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی کی زمین سے ظلماً ایک بالشت جگہ لی تو اس کو قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق پہنا یا جائے گا۔“
۴۔وراثت میں سے اپنی بہنوں کو محروم کرنا زمانہ جاہلیت کی بُری رسم ہے ، جوکہ شریعت سے متصادم ہے، اس کا ترک ہمارے ذمہ فرض اور ضروری ہے ۔
اس تمہید کے بعد آپ کےسوال کا جواب یہ ہے کہ کسی وارث کا ترکہ میں سے کچھ لئے بغیر زبانی طور پراپنا حصہ بخش دینا درست نہیں، اس سے اس کا ترکہ میں حق ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور باقی رہتاہے،لہذا مسؤلہ صورت میں آپ کے دادا ابو کے تین بیٹیوں نے ان کی وفات کے بعدآپ کے والداور چچا کے سامنے جو زبانی طور پر اپنا حصہ معاف کیا ہے وہ معاف نہیں ہوا ،اب بھی وہ اپنا حق مانگ سکتی ہیں اوردیگرورثہ  پر  لازم ہے کہ ان کاحق پورا پورا اداکرے اگر کسی زمین یا جائیداد کے عوض اس کی قیمت دینا چاہیں تو موجودہ قیمت دینا لازم ہوگی۔
آپ کے دادا ابو کےجس بیٹی نےکچھ نقد رقم لیکر اپنا حق معاف کیاہے وہ معاف ہوگیاہے،بشرطیکہ آپ کے دادابو کے ترکہ میں کسی پر قرض نہ ہواور جتنی نقدرقم مذکورہ بیٹی نےلی ہے،باقی ترکہ میں یا تو نقد رقم بالکل نہ ہویا ہومگر اس میں  متعلقہ بیٹی کا باقی ماندہ حصہ لی جانے والی رقم سےزائد ہو،کم یا برابرنہ ہو۔
جن تین بہنوں کا حق معاف نہیں ہوا وہ اب چونکہ بھائیوں اورپھر ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوچکا ہے،لہذا ان سب پرلازم ہے کہ داداکی مذکورہ بیٹیوں کوان کے شرعی حصے لوٹادیں،اگروہ نہ رہے ہوں تو ان کی اولاد کو لوٹادیں یا باہمی رضامندی سےکوئی چیز دیکر ان سے صلح کرلیں،اورآخرت کی مواخذہ سےاپنے آپ کو بچائیں۔
واضح رہے کہ وراثت کا حقدار بننے کیلئے مورِث کے انتقال کے وقت وارث کا زندہ ہونا شرعاً ضروری ہےلہذامسئولہ صورت میں دادا کی زندگی میں جو بیٹا فوت ہواہے، دادا کی میراث میں اس کی اولاد شرعاً وارث اور حقدار نہیں ہیں،تاہم اگرسب ورثہ عاقل، بالغ تھے اورانہوں نے اپنی رضامندی سے مذکورہ بھائی کے بچوں کو ترکہ میں سے کچھ دیا ہےتویہ اچھی بات ہےاور باعثِ اجروثواب ہے،تاہم چونکہ اس میں بھی دادا کی مذکورہ بیٹیوں کاحصہ آگیاہے، لہذا وہ بھی دادا کی بیٹیوں کا حصہ واپس کریں گے،یا ان کو کچھ دیکر صلح کریں گے ۔
باقی ہر وارث کو کتناحصہ ملے گا،اس کےلئے ترتیب سے ہر فوت ہونےوالے کا نام اوراس کی موت کے وقت موجود ورثة اوران کے نام لکھ کر دوبارہ پوچھنا ہوگا۔

حکیم شاہ

دارالافتاء جامعة الرشید احسن آباد کراچی پاکستان

01/12/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب